کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 767
کو دور کر دیتا ہے تو تمہارا ایک فریق اپنے رب سے شرک کرنے لگتا ہے۔‘‘ (النحل: ۵۳، ۵۴) بیٹی کی پیدائش پر بے دین کا طرز عمل سوال : بیٹی کی پیدائش پر بے دین کا طرز عمل کیا ہوتا ہے؟ جواب : اللہ فرماتے ہیں : ’’جب اسے بیٹی کی (پیدائش کی) خوشخبری دی جاتی تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غصے سے بھر جاتا اس ملنے والی خوشخبری کی وجہ سے قوم سے چھپتا پھرتا کہ اسے روک کر رسوائی برداشت کرنا ہے یا اسے مٹی میں دھنسا دے۔ خبردار برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں ۔‘‘ (النحل: ۵۸، ۵۹) سوال : اسلام بیٹیوں کی پیدائش پر کس رد عمل کی تلقین کرتا ہے؟ جواب : اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: ﴿ لِلَّہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ یَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِِنَاثًا وَّیَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ الذُّکُوْرَo﴾ (الشورٰی: ۴۹) ’’آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے، وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بیٹیوں کے دینے کا ذکر پہلے فرمایا، پھر بیٹوں کے عطا فرمانے کا ذکر فرمایا، امام ابن قیم رحمہ اللہ اس بارے میں دو اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’میرے نزدیک اس کی ایک حکمت یہ ہے اور وہ یہ ہے اللہ پاک نے بیٹیوں کو مقدم کیا ہے جن کو اہل جاہلیت مؤخر کرتے تھے گویا کہ یہ بیان کرنا مقصود تھا کہ تمہاری طرف سے نظر انداز کی ہوئی یہ حقیر قسم میرے نزدیک ذکر میں مقدم ہے۔‘‘ بیٹی کی پیدائش اور امام احمد رحمہ اللہ امام احمد رحمہ اللہ کے صاحبزادے صالح بیان کرتے ہیں کہ جب ان کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوتی تو وہ فرماتے: اَلْاَنْبِیَائُ کَانُوا اٰبَاء بِنَاتٍ ’’انبیاء بیٹیوں کے باپ تھے۔‘‘ نیز فرماتے ہیں : قَدْ جَائَ فِی الْبَنَاتِ مَا قَد عَلِمتَ[1] ’’بے شک بیٹیوں بارے جو کچھ وارد ہے وہ تمہیں معلوم ہی ہے۔‘‘ بیٹی اور بیٹے دونوں کی ولادت پر مبارک باد دینا امام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’آدمی کے لیے جائز نہیں کہ بیٹے کی (پیدائش پر) مبارکباد دے اور بیٹی کی
[1] المرجع السابق: ص ۳۲۔