کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 765
سونے کے دانت لگوانے کا حکم سوال : سونے کے دانت لگوانا، مردوں یا عورتوں کے لیے اس کا کیا حکم ہے؟ جواب : سیّدنا عرفجہ بن اسعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یوم الکلاب کے موقع پر ان کی ناک کٹ گئی انہوں نے چاندی کی ناک لگائی تو اس میں بد بو پیدا ہوگئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سونے کی ناک لگانے کا حکم دیا۔[1] اسی بناء پر ائمہ نے دانتوں میں سونے کے جڑاؤ کو جائز رکھا ہے۔[2] فوت شدگان کا اس دُنیا سے رابطہ سوال : کیا فوت شدگان احوال دنیا سے آگاہ ہیں نیز من دون اللّٰہ سے صرف بت مراد ہیں ؟ جواب : اس سوال کے جواب میں جب ہم قرآن پر غور کرتے ہیں تو وہ ہمیں بتاتا ہے کہ ’’جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو انہوں نے کچھ پیدا نہیں کیا وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں مردہ ہیں زندہ نہیں اور انہیں احساس تک نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔ (النحل: ۲۰، ۲۱) اس کی تفسیر میں مولانا کیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ان کے بنائے ہوئے شریکوں کا یہ حال ہے کہ وہ کسی چیز کو پیدا تو کیا خاک کریں گے وہ تو خود مخلوق ہیں اور جو مخلوق ہو وہ اپنے بنانے والے کا محتاج بھی ہوگا نیز جو چیز مخلوق ہو وہ ضرور فنا بھی ہوگی، لہٰذا ایسے شریک نہ خود الٰہ ہو سکتے ہیں اور نہ صفات الوہیت میں اللہ کے شریک بن سکتے ہیں ۔ من دون اللہ سے مراد صرف بت نہیں ان دو آیات سے صاف واضح ہے کہ یہاں ایسے معبودوں کا ذکر نہیں کیا جا رہا جو بے جان ہیں مثلاً سورج چاند ستارے، شجر و حجر اور لکڑی یا پتھر یا مٹی وغیرہ کے بت کیونکہ ان کے لیے بعث بعد الموت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جاندار یا ذوی العقول میں سے فرشتوں ، فوت شدہ انبیاء، اولیاء اور صالحین کو خدائی صفات میں شریک بنایا جاتا رہا ہے ان میں فرشتوں پر اموات غیر احیاء کا اطلاق نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ زندہ ہیں مرتے نہیں ۔ باقی صرف اصحاب قبور رہ جاتے ہیں ۔ جن پر اموات غیر احیاء کا اطلاق بھی ہو سکتا ہے اور ان کے لیے بعث بعد الموت بھی ضروری ہے گویا ﴿الَّذِیْنَ یَدْعُونَ مِنْ دونِ اللّٰہ﴾ سے مراد وہ انبیاء، اولیاء اور شہداء وصالحین ہیں جنہیں ان کی وفات کے بعد فریاد رس، غوث، داتا، گنج بخش، وغیرہ وغیرہ القاب دے ڈالے گئے اس قسم کا شرک عرب میں عام پایا جاتا تھا، چنانچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ یہود پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا اور اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ
[1] ابوداود: ۴۲۳۲۔ وترمذی: ۱۷۷۰۔ [2] تحفۃ الاحوذی تحت الحدیث۔