کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 761
کے بالائی خطے میں داخل ہوتے ہیں اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچتا ہے۔
ان کی رفتار بالائی فضا میں کم وبیش ۲۶ میل فی سیکنڈ ہوئی ہے اور بسا اوقات ۵۰ میل فی سیکنڈ تک دیکھی گئی ہے، بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ برہنہ آنکھوں نے بھی ٹوٹنے والے تاروں کی غیر معمولی بارش دیکھی ہے۔ چنانچہ یہ چیز ریکارڈ پر موجود ہے۔ ۱۳ نومبر ۱۸۳۳ء کو شمالی امریکہ کے مشرقی علاقے میں ایک مقام پر نصف شب سے لے کر صبح تک ۲ لاکھ شہاب ثاقب گرتے ہوئے دیکھے گئے۔[1]
ہوسکتا ہے کہ یہی بارش عالم بالا کی طرف شیاطین کی پرواز میں مانع ہوتی ہو کیونکہ زمین کی بالائی حدود سے گزر کر فضائے بسیط میں ۱۰کھرب روزانہ کے اوسط سے ٹوٹنے والے تاروں کی برسات ان کے لیے اس فضا کو بالکل ناقابل عبور بنا دیتی ہوگی۔[2]
سامانِ گزر بسر کس کے ذمے ہے؟
سوال : کیا سامانِ گزر بسر کی ذمہ داری انسان پر ہے کہ وہ اس کی منصوبہ بندی کرتا پھرے؟
جواب : نہیں ! بلکہ یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے، کس چیز کو کتنا پیدا کرنا ہے کسی چیز کی کتنی ضرورت ہے انسان کو اس سلسلے میں منصوبہ بندی کرنے اور پریشانی مول لینے کی حاجت نہیں ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَ جَعَلْنَا لَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ وَ مَنْ لَّسْتُمْ لَہٗ بِرٰزِقِیْنَo﴾ (الحجر: ۲۰)
’’اور ہم نے تمہارے اور جن کو تم رزق دینے والے نہیں ہو ان کے لیے سامان معیشت فراہم کیا۔‘‘
’’موجودہ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ نباتات کی ہر نوع میں اس قدر تناسل کی زبردست طاقت ہے کہ اگر صرف ایک پودے کو زمین پر بڑھنے اور پھولنے کا موقع دیا جائے تو چند ہی سالوں میں اس جنس کے پودے تمام روئے زمین پر پھیل جائیں اور کسی دوسری قسم کے پودے کے لیے زمین میں جگہ باقی نہ رہے۔‘‘[3]
ایک مچھلی جتنے انڈے دیتی ہے اس سے نکلنے والے بچے اگر انہیں دوسری مچھلیاں نہ کھائیں سمندر مچھلیوں سے اَٹ جائیں ۔
ایسے ہی ایک مرد کے مادہ منویہ میں جتنے جرثومے ہوتے ہیں وہ تمام دنیا کی عورتوں کو بار آور کر سکتے ہیں ۔ لیکن ایک جرثومے سے فقط ایک بچہ پیدا ہوتا ہے۔
اسی طرح انسان ایک حد تک آکر رک جاتا ہے یہ نہیں کہ خوراک کھاتا جائے اور بڑھتا جائے۔ چنانچہ
[1] انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا: ۱۹۴۶ء جلد ۱۵ ص ۳۳۷، ۳۳۹۔
[2] تفہیم القرآن: ۲/ ۵۰۱۔
[3] تیسیر القرآن: ۳/ ۴۷۸۔