کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 755
جواب : اللہ عزوجل نے فرمایا: ﴿وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ﴾(بنی اسراء یل: ۳۳) ’’اللہ کی حرام کردہ جان کو قتل نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔‘‘ قتل نفس سے مراد صرف دوسرے انسان کا قتل ہی نہیں بلکہ خود اپنے آپ کو قتل کرنا بھی ہے اس لیے کہ نفس جس کو اللہ نے ذی حرمت ٹھہرایا ہے، اس کی تعریف میں دوسرے نفوس کی طرح انسان کا اپنا نفس بھی داخل ہے، لہٰذا جتنا بڑا جرم اور گناہ قتل انسان ہے اتنا ہی بڑا جرم اور گناہ خود کشی بھی ہے، آدمی کی بڑی غلط فہمیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنی جان کا مالک اور اپنی اس ملکیت کو باختیار خود تلف کر دینے کا مجاز سمجھتا ہے، حالانکہ یہ جان اللہ کی ملکیت ہے اور ہم اس کے اتلاف کے تو در کنار، اس کے کسی بے جا استعمال کے بھی مجاز نہیں ہیں ۔[1] سوال : کن حقوق کی بنا پر انسان قتل ہو سکتا ہے؟ جواب : اسلامی قانون نے قتل بالحق کو پانچ صورتوں میں محدود کر دیا ہے: (۱)قتل عمد کے مجرم سے قصاص۔ (۲) دین حق کے راستے میں مزاحمت کرنے والوں سے جنگ۔ (۳) اسلامی نظام حکومت کے تختے کو الٹنے کی سعی کرنے والے کو سزا۔ (۴) شادی شدہ مرد یا عورت کو ارتکاب زنا کی سزا۔ (۵)ارتداد کی سزا۔[2] مشرک اہل ایمان سوال : کیا اہل ایمان بھی شرک کا ارتکاب کرسکتے ہیں ؟ جواب : جی ہاں ۔[3] کیا کوئی عورت بھی نبی ہوئی ہے؟ سوال : کیا کوئی عورت بھی نبی ہوئی ہے؟ جواب : اللہ عزوجل کا یہ طریقہ رہا ہے کہ اس نے آدمیوں کو ہی پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلاَّ رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ مِّنْ اَہْلِ الْقُرٰی﴾ (یوسف:۱۰۹) ’’اور ہم نے آپ سے پہلے فقط آدمیوں کو ہی پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، ہم ان کی طرف وحی کرتے تھے جو کہ شہروں سے تعلق رکھنے والے تھے۔‘‘
[1] تفہیم القرآن: ۲/ ۶۱۴۔ [2] دیکھئے: تفہیم القرآن: ۲/ ۶۱۴۔ [3] تفصیل کے لیے دیکھئے تفسیر سورۃ یوسف آیت نمبر ۱۰۶۔