کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 754
موت کی تمنا کرنا سوال : یوسف علیہ السلام نے فرمایا: ﴿تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَo﴾ (یوسف:۱۰۱) ’’کیا اسے بنیاد بنا کر موت کی تمنا کی جا سکتی ہے؟ جواب : اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ وہ موت کی تمنا نہیں کر رہے بلکہ رب سے التجا کر رہے ہیں جب بھی موت دو تو مسلمان ہونے کی حالت میں موت دینا۔ بہرحال اگر پھر بھی اصرار کیا جائے کہ انہوں نے موت ہی کی آرزو کی ہے تو پھر ہم کہیں گے یہ ان کی شریعت میں جائز ہو سکتا ہے ہماری شریعت میں تو بالکل منع ہے۔ بخاری ومسلم کی روایت میں ہے تم میں سے کوئی کسی سختی کے نازل ہونے کی وجہ سے موت کی تمنا ہرگز نہ کرے اگر وہ نیک ہے تو اس کی زندگی اس کی نیکیاں بڑھائے گی اور اگر وہ بد ہے تو ممکن ہے کسی وقت توبہ کی توفیق ہو جائے بلکہ یوں کہے: اے اللہ جب تک میرے لیے حیات بہتر ہے تو مجھے زندہ رکھ۔[1] سوال : کیا مذہبی فتنے یا دین میں آنے والی مصیبت کی بنا پر موت کی تمنا کی جا سکتی ہے؟ جواب : کی جا سکتی ہے، جس طرح کہ جادوگروں نے فرعون کی قتل کی دھمکیاں سن کر کی تھی کہ اللہ ہمیں صبر عطا کر اور ہمیں اسلام کی حالت میں موت دے۔ (الاعراف: ۱۲۶) اور جیسے مریم رضی اللہ عنہا نے ولادت عیسیٰ کے بعد لوگوں کے طعنے اور تہمتیں سن کر کی تھی۔ (مریم: ۲۳) نیز آپ کی دعا کا ایک ٹکڑا ہے: ’’اللہ جب کسی قوم کے ساتھ فتنے کا ارادہ کرے تو مجھے اس فتنے میں مبتلا کرنے سے پہلے ہی دنیا سے اٹھا لے۔‘‘ [2] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی شرارتوں سے تنگ آکر کہا تھا: الٰہ العالمین مجھے اب تو اپنی جانب قبض کر لے، یہ لوگ مجھ سے اور میں ان سے تنگ آچکا ہوں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ بھی جب فتنوں کی زیادتی ہوئی اور فتنوں کا سنبھالنا مشکل ہو پڑا اور امیر خراسان کے ساتھ بڑے معرکے پیش آئے تو آپ نے جناب باری سے دعا کی کہ اللہ اب مجھے اپنے پاس بلا لے۔[3] سوال : خود کشی کا اسلام میں کیا حکم ہے؟
[1] صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب الدعاء بالموت والحیاۃ ۶۳۵۱۔ مسلم: ۲۶۸۰۔ ۲۶۸۲۔ بحوالہ ابن کثیر: ۳/ ۳۵۔ [2] ترمذی: ۳۲۳۵۔ صحیح ہے۔ [3] دیکھئے تفسیر ابن کثیر ایضاً۔