کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 75
حواء علیہا السلام کی پیدائش کی وجہ فتح القدیر میں یوں مذکور ہے کہ ابن جریر، ابن ابی حاتم، بیہقی و ابن عساکر، سیّدنا ابن عباس، سیّدنا ابن مسعود اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایک جماعت سے بیان کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جب سیدنا آدم نے جنت میں رہائش اختیار کر لی وہ جنت میں وحشت ناک انداز میں پھرا کرتے تھے ان کی کوئی بیوی نہ تھی جس سے سکون پاتے۔ ایک دفعہ وہ سوئے ہوئے تھے کہ اچانک سر کے پاس ایک عورت بیٹھی ہوئی پائی، جسے اللہ نے ان کی پسلی سے پیدا کیا تھا۔ بخاری و مسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورتوں کے متعلق خیر کی وصیت قبول کرو بلاشبہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلیوں میں سے سب زیادہ ٹیڑھی اوپر والی ہوتی ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرے گا تو تو اسے توڑ بیٹھے گا اور اگر تو اسے چھوڑے رکھے گا تو ایسے چھوڑے گا کہ اس میں ٹیڑھ باقی رہے گی۔‘‘[1] حواء علیہا السلام کے بارے بخاری میں آتا ہے: ((لَوْ لَا حَوَّائُ لَمْ تَخُنْ اُنْثٰی زَوْجَہَا)) ’’اگر حواء علیہا السلام نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے خاوند کی خیانت نہ کرتی۔‘‘[2] امام ابن حجر رحمہ اللہ اس کی شرح میں رقم طراز ہیں کہ ’’حواء علیہا السلام کی خیانت یہ ہے کہ انہوں نے ابلیس کی سجھائی ہوئی بات کو قبول کر لیا حتیٰ کہ اسے آدم کے لیے مزین کر کے پیش کیا اب جب کہ یہ آدم کی ان بیٹیوں کی ماں ہے جو ولادت میں اس کے مشابہ اور اس کا اثر قبول کیے ہوئے ہیں تو اب کوئی عورت اپنے خاوند کی خیانت کرنے سے بچ نہیں سکتی وہ عملی طور پر کرے یا قولی طور پر۔‘‘[3]
[1] صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب خلق آدم و ذریتہ، رقم: ۳۳۳۱۔ فتح القدیر: ۱/۹۱۔ [2] حوالہ سابق: ۳۳۳۰۔ [3] فتح الباری: ۶/۴۵۳۔