کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 741
کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے تھے؟ سوال : کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے تھے؟ جواب : نہیں ! قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’یہ غیب کی خبریں ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں اس سے پہلے نہ آپ انہیں جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم۔‘‘ (ھود: ۴۹) یہ آیت اس عقیدے کی تشریح کے لیے کافی ہے۔ میزبان کو سنت ابراہیمی سے سیکھنا چاہیے سوال : ایک میزبان کو سنت ابراہیمی سے کیا سبق ملتا ہے؟ جواب : مہمان سے پوچھے اسے زچ کیے بغیر جو توفیق ہو اس کے لیے لا حاضر کیا جائے جس طرح کہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے آتے ہیں ، اور وہ ﴿فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآئَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ﴾ (ہود:۶۹) تھوڑی دیر گزرتی ہے کہ بچھڑا بھون کر سامنے رکھتے ہیں ۔‘‘ ٹھیک طرح سے ادا کی گئی نماز کے اثرات سوال : ٹھیک طرح سے ادا کی گئی نماز کیا اثرات رکھتی ہے؟ جواب : نماز اگر فی الواقع سوچ سمجھ کر اور خشوع وخضوع سے ادا کی جائے تو فی الواقع وہی باتیں سکھلاتی ہے جن کی قوم شعیب کو سمجھ آگئی تھی مگر افسوس ہے کہ ہم مسلمانوں کو ان باتوں کی بھی سمجھ نہیں آتی جو مدین والے سمجھ گئے تھے، نماز انسان میں تقویٰ پیدا کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے، اور تقویٰ ہی وہ چیز ہے جو انسان کو ہر طرح کی اعتقادی، اخلاقی اور معاشرتی برائیوں سے بچاتا ہے۔ غور فرمائیے کہ جو انسان ایک دن میں بیسیوں دفعہ سوچ سمجھ کر ﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن﴾ پڑھے گا وہ مشرک رہ سکتا ہے جو انسان دن میں بیسیوں دفعہ سجدہ ریز ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے وہ کیا اپنے کام کاج اور کاروبار کے وقت اللہ کو یاد نہ رکھے گا اور بددیانتی ترک نہ کر دے گا اور حرام وحلال کی تمییز اسے ملحوظ نہ رہے گی؟ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا ہے: ﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ﴾ (العنکبوت: ۴۵) اور فحشاء ومنکر کے الفاظ میں اتنی وسعت ہے کہ ہر طرح کی برائیاں ان میں آجاتی ہیں بالفاظ دیگر نماز کی صحت کا معیار ہی یہ ہے کہ انسان میں تقویٰ پیدا ہو وہ ہر طرح کی برائیاں چھوڑ دے اور نیکی کے کاموں کی طرف راغب ہو اور کسی شخص میں نماز ایسا اثر پیدا نہیں کرتی تو سمجھ لیجئے کہ وہ نماز ادا نہیں کرتا