کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 74
ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں ، جب کبھی ان سے کوئی پھل انھیں کھانے کے لیے دیا جائے گا، کہیں گے یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے ہمیں دیا گیا تھا اور وہ انھیں ایک دوسرے سے ملتا جلتا دیا جائے گا، اور ان کے لیے ان میں نہایت پاک صاف بیویاں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔ ‘‘ ﴿اَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ﴾ کہتے ہیں :’’ حیض، پاخانے، تھوک اور رینٹ سے پاک ہوں گی۔‘‘ صحیحین وغیرہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کی اسناد سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اہل جنت کی صفات کے بارے یہ بات ثابت ہے کہ جنتی نہ تھوکیں گے، نہ کھنکار پھینکیں گے اور نہ پاخانہ کریں گے۔[1] عربی متن میں ازواج کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ’’جوڑے‘‘ ہیں اور یہ لفظ شوہر اور بیوی دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، شوہر کے لیے بیوی زوج ہے اور بیوی کے لیے شوہر زوج ہے۔ مگر وہاں یہ ازواج پاکیزگی کی صفت لیے ہوں گے، اگر دنیا میں کوئی مرد نیک ہے اور اس کی بیوی نیک نہیں ہے تو آخرت میں ان کا رشتہ کٹ جائے گا اور اس نیک مرد کو کوئی دوسری نیک بیوی دے دی جائے گی اگر یہاں کوئی عورت نیک اور اس کا شوہر بد ہے تو وہاں وہ اس برے شوہر کی صحبت سے خلاصی پا لے گی اور کوئی نیک مرد اس کا شریکِ زندگی بنا دیا جائے گا اور اگر یہاں کوئی شوہر اور بیوی دونوں نیک ہیں تو وہاں ان کا یہی رشتہ ابدی و سرمدی ہو جائے گا۔[2] ﴿وَ قُلْنَا یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَ کُلَا مِنْہَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لَا تَقْرَبَا ہٰدِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَo﴾ (البقرۃ: ۳۵) ’’اور ہم نے کہا اے آدم! تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور دونوں اس میں سے کھلا کھاؤ جہاں چاہو اور تم دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا، ورنہ تم دونوں ظالموں سے ہو جاؤ گے۔‘‘ اس عبارت قرآنی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جنت میں رہنے سے پہلے حضرت حواء علیہا السلام پیدا کی گئی تھیں ۔ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اہل کتاب وغیرہ کے علماء سے بروایت سیّدنا ابن عباس مروی ہے کہ ابلیس مردود قرار دئیے جانے کے بعد حضرت آدم کے علم کو ظاہر کر کے پھر اُن پر اونگھ کی کیفیت طاری کر دی گئی اور ان کی بائیں پسلی سے حضرت حواء علیہا السلام کو پیدا کیا جب آنکھ کھول کر حضرت آدم نے انہیں دیکھا تو اپنے خون اور گوشت کی وجہ سے ان کی انس و محبت ان کے دل میں پیدا ہوئی۔ پھر پروردگار نے انہیں ان کے نکاح میں دے دیا اور جنت میں رہنے کا حکم فرمایا۔[3]
[1] فتح القدیر: ۱/۷۲۔ [2] تفہیم القرآن: ۱/۵۹۔ [3] تفسیر طبری: ۱/۵۱۴ بحوالہ تفسیر ابن کثیر: ۱/۱۴۸۔