کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 736
عَمَلَ الْمُفْسِدِیْنَo﴾ (یونس: ۸۱) ’’تو جب انھوں نے پھینکا، موسیٰ نے کہا تم جو کچھ لائے ہو یہ تو جادو ہے، یقینا اللہ اسے جلدی باطل کر دے گا۔ بے شک اللہ مفسدوں کا کام درست نہیں کرتا۔ــ‘‘ـ معلوم ہوا جادو کو باطل کرنا اللہ کا کام ہے قرآن وحدیث میں ملنے والی مسنون دعاؤں کے ذریعے بندہ اپنے رب کو پکارے اللہ ضرور اس کا مسئلہ حل کرے گا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو چلا تھا تو آپ نے معوذتین کے ساتھ اپنا علاج کیا تھا۔ مصیبت کے وقت مومنین کا شیوہ سوال : مصیبت میں ایک مومنہ کو کیا کرنا چاہیے؟ جواب : جادوگروں کی ناکامی، موسیٰ علیہ السلام کی کامیابی اور نوجوانوں کے اسلام قبول کر لینے کے بعد فرعون کے اہل اسلام پر عرصہ حیات تنگ کر دیا اس وقت اللہ عزوجل نے انہیں حکم دیا: ﴿وَ اجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ بَشِّرِ الْمُوْمِنِیْنَo﴾ (یونس: ۸۷) ’’اپنے گھروں کو قبلہ رخ بنا لو اور نماز قائم کرو اور اہل ایمان کو خوشخبری دے دیجیے۔‘‘ چنانچہ فرعون کی سختی بہت بڑھ گئی تھی، اس لیے انہیں کثرت کے ساتھ نماز ادا کرنے کا حکم ہوا، یہی حکم اس امت کو ہے کہ ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد چاہو۔ (البقرۃ: ۱۵۳) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک بھی یہی تھی جب کوئی گھبراہٹ ہوتی طور پر فوری نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے۔[1] سوال : غم اور خوشی میں ایک مومنہ کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ جواب : ایک نا سمجھ انسان کے کردار پر قرآن روشنی ڈالتا ہے کہ جب ہم اس کو رحمت عطا کر کے چھین لیتے ہیں تو وہ ناشکرا اور مایوس ہو جاتا ہے۔ تکلیف سے جان چھوٹتی اور راحتیں گھر میں قدم رکھتی ہیں تو خوشی سے پھول کر کیا بن جاتا ہے اور فخر و تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ایک ایماندار کا کردار ایسا ہوتا ہے، کہ وہ ایمانی حالت پر ڈٹا رہتا ہے اور نیکیاں جاری رکھتا ہے اور یہ وہ کردار ہے جس پر انعام کا اعلان کرتے ہوئے رب کائنات فرماتے ہیں : ﴿اُولٰٓئِکَ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ کَبِیْرٌo﴾ (ہود: ۱۱) ’’انہی لوگوں کے لیے بخشش اور عظیم اجر ہے۔‘‘ چنانچہ یہی ایک مومنہ کا کردار ہونا چاہیے، واللہ ولی التوفیق
[1] ابوداود، کتاب التطوع، باب وقت قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ۱۳۱۹۔ حسنہ الالبانی بحوالہ تفسیر ابن کثیر: ۲/ ۵۵۸۔