کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 735
﴿اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَo الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَo﴾ (یونس: ۶۲۔۶۳)
’’سن لو! بے شک اللہ کے دوست، ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ جو ایمان لائے اور بچا کرتے تھے۔‘‘
عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور بہت سے سلف فرماتے ہیں کہ اولیاء اللہ وہ ہیں جن کا چہرہ دیکھنے سے اللہ یاد آجائے۔[1]
سوال : موجودہ دور میں اولیاء کا کیا مفہوم ہے؟
جواب : قرن اول میں بھی کچھ ایسے مسلمان تھے، جن کی طبائع زہد و تقویٰ اور زیادہ عبادت کی طرف مائل ہوگئیں ، پہلی اور دوسری صدی ہجری میں انہیں زہّاد اور صالحین کا نام دیا جاتا تھا لیکن تیسری صدی ہجری میں جب مسلمانوں پر یونانی اور ہندی فلسفے کے اثرات پڑنے لگے تو یہ طبقہ ترک دنیا اور رہبانیت کی طرف مائل ہوگیا اور اولیاء اللہ کا مفہوم یکسر تبدیل ہوگیا اور یہ لفظ صرف ان لوگوں کے لیے مختص ہوگیا جو ریاضتیں اور چلہ کشیاں کریں اور باقاعدہ کسی شیخ یا ولی کی بیعت کے سلسلہ میں منسلک ہوں اور ان سے کرامات کا ظہور ہو پھر اس طبقہ میں وحدت الوجود، وحدۃ الشہود اور حلول جیسے غیر اسلامی عقائد داخل ہوگئے اور ولی کی ولایت کا معیار یہ قرار پایا کہ جس کسی سے کرامات کا ظہور جتنا زیادہ ہو وہ اسی درجے کا ولی ہے پھر ان لوگوں میں سے بعض نے یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ ہمیں براہ راست اللہ سے خبریں ملتی ہیں اور ہمیں رسول کی ضرورت نہیں ہے بعض نے شریعت کو ہڈیاں اور اپنے دین طریقت کو اصل مغز قرار دیا اور ولایت کے ایک باقاعدہ نظام کی داغ بیل رکھ دی۔ ان میں پیری مریدی لازمی قرار دی گئی اور یہ لوگ اپنے اس مخصوص طبقہ کو ہی برتر اور اولیاء اللہ قرار دینے لگے اور ان اولیاء اللہ کے علم غیب، تصرف اور ہیبت سے لوگوں کو ڈرایا جانے لگا اور ایسے نظریات مسلمانوں میں خوب شائع وذائع کیے گئے، شرعی نقطہ نظر سے ایسے نظریات بالکل بے بنیاد ہیں ۔[2]
آسمانی علم سے جادو کی کاٹ
سوال : کیا آسمانی علم سے جادو کی کاٹ ممکن ہے؟
جواب : جی ہاں ! موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں جادوگر آئے تو آپ ان سے مخاطب ہوتے ہیں :
﴿فَلَمَّآ اَلْقَوْا قَالَ مُوْسٰی مَا جِئْتُمْ بِہِ السِّحْرُ اِنَّ اللّٰہَ سَیُبْطِلُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُصْلِحُ
[1] تفصیل کے لیے تفسیر ، ملاحظہ کیجئے: یونس ۶۲، ۶۳۔
[2] تیسیر القرآن: ۲/ ۳۱۰۔