کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 734
عید میلاد کا حکم
سوال : عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کا کیا حکم ہے؟
جواب : شریعت مطہرہ میں عید میلاد منانے کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ محض بدعت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((مَنْ اَحْدَثَ فِی أَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ مِنْہٗ فَہُوَ رَدٌّ۔))[1]
’’جو شخص ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرے جو اس میں سے نہیں تووہ مردود ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
((مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ اَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ۔))[2]
’’جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہماری مہر نہ ہو تو وہ عمل مردود ہے۔‘‘
یہ بات معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں نہ تو خود یوم میلاد منایا اور نہ اس کا حکم صادر فرمایا، اسی طرح خلفائے راشدین اور جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس کا اہتمام نہیں فرمایا، حالانکہ وہ لوگ آپ کی سنت کے سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑھ کر اس سے محبت کرنے والے اور سب سے زیادہ شریعت اسلامیہ کی اتباع کرنے والے تھے۔
اس بات سے معلوم ہوا کہ عید میلاد کا تعلق شرع محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہرگز نہیں ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ اور مسلمانوں کو گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہوتا یا اس کا حکم دیا ہوتا یا کم از کم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایسا کیا ہوتا تو نہ صرف یہ کہ ہم سب سے پہلے یہ سب کچھ کرتے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس امر کی دعوت دیتے کیونکہ ہم سب لوگوں سے بڑھ کر اتباع سنت کے حریص اور آپ کے اوامر ونواہی کی تعظیم بجا لانے والے ہیں ، ہم اللہ رب العزت سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اور ہمارے تمام مسلمان بھائیوں کو دین پر ثابت قدم رکھے اور اپنی پاکیزہ شریعت کی مخالفت سے بچائے۔ (آمین) [3]
اصل اولیاء اللہ کون ہیں ؟
سوال : اولیاء اللہ کون ہیں ؟
جواب : اللہ عزوجل نے اولیاء کی تعریف قرآن میں یوں کی ہے:
[1] صحیح البخاری، ۲۶۹۷۔ ومسلم۔
[2] مسلم: ۱۷ (۱۷۱۸)
[3] شیخ ابن باز، فتاوی برائے خواتین: ص ۶۷۔ ۶۸۔