کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 733
پکارنے سے سخت نقصان ہوتا ہے اس کی بجائے اپنے پیر کو بلایا جائے تو بہت ہی فائدہ ہو سکتا ہے۔ ۳۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ﴾ لیکن یہ واقعہ بتلاتا ہے کہ قریب پیر ہے اللہ تو بہت دور ہے لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ تک رسائی چاہتے ہو تو اپنے پیر کا ذکر کرو۔ اس واقعے نے شرک کی بہت سی راہیں کھول دی ہیں اور ندا لغیر اللہ، استمداد، توسل، استعانت، اور تصور شیخ جیسے اہم مسائل کو انتہائی ضروری قرار دیا ہے۔ وہاں افسانہ تراش کا کمال یہ ہے کہ ایسا لا جواب افسانہ گھڑا کہ مرید بیچارے کو تسلیم کرنا پڑا کہ میرا اللہ کو پکارنا واقعی ایک شیطانی وسوسہ تھا۔ اب غالباً آپ کو سمجھ آچکی ہوگی کہ مشرکین مکہ جب سمندر میں گِھر جاتے تھے اور موت سامنے کھڑی نظر آنے لگتی تھی تو اس وقت صرف اکیلے اللہ کو کیوں پکارنے لگتے تھے اور ہمارے دور کے مشرک اس وقت بھی اپنے پیر کو کیوں پکارتے ہیں ؟‘‘ [1] سورۃ یونس کی آیت نمبر ۵۸ کی شرح سوال : کیا سورۃ یونس کی آیت نمبر ۵۸ سے جشن عید میلاد کا ثبوت ملتا ہے؟ جواب : مذکورہ آیت میں اللہ عزوجل فرماتے ہیں : ﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo﴾ (یونس:۵۸) ’’کہہ دیجیے (یہ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت ہی سے ہے، سو اسی کے ساتھ پھر لازم ہے کہ وہ خوش ہوں ۔ یہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں ۔‘‘ ’’فرح‘‘ کا معنی امام شوکانی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں یوں بیان فرماتے ہیں : ((ہُوَ اللَّذَّۃُ فِی الْقَلْبِ بِسَبَبِ إدْرَاکِ الْمَطْلُوب۔))[2] ’’فرح اس لذت کا نام ہے جو مطلوب کو حاصل کرنے سے دل میں پیدا ہوتی ہے۔‘‘ یعنی یہ دل میں لذت پانے کا نام ہے اس سے جشن مراد لینا خلاف حقیقت ہے ایک مومن تو ہر روز یہ خوشی اپنے دل میں محسوس کرتا ہے جو اسے آقائے کائنات کے اس دنیا پر آنے سے ہوئی اور روزانہ آپ کی پیروی کا پیمان باندھتا ہے نہ کہ ایک دن جشن منا کر سارا سال بے عملی کا شکار رہتا ہے اور حقیقت میں جشن میں بھی آپ کی ولادت کی خوشی کم اور نفس کی پیروی ہلہ گلہ زیادہ نظر آتا ہے۔
[1] تیسیر القرآن: ۲/ ۲۹۰ تا ۲۹۳۔ [2] فتح القدیر: ۲/ ۵۶۳۔