کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 731
تنہا بے رابطہ و بے فنا فی الشیخ موصل نیست، ذکر ہر چند از اسباب وصول است لیکن غالباً مشروط برابطہ محبت وفنا فی الشیخ است‘‘[1] (الترجمہ) فنا فی الشیخ ہونے کے بغیر تنہا ذکر سے اللہ تک رسائی نہیں ہو سکتی اگرچہ ذکر بھی رسائی کا ایک سبب ہے۔ لیکن اس کی غالب شرط (پیر سے) محبت کا تعلق اور اس میں فنا ہونا ہے۔ اقتباس بالا سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آتے ہیں : ۱۔ تصور شیخ کے عقیدہ کا قرآن وسنت میں کہیں سراغ نہیں ملتا۔ ۲۔ یہ عقیدہ انتہائی خطرناک اور گمراہ کن ہے۔ ۳۔ ان دونوں باتوں کے باوجود صوفیاء اور خصوصاً نقشبندیوں نے اللہ تک رسائی کی سب سے بڑی اور اہم شرط قرار دیا ہے۔ چنانچہ مولانا روم اسی فلسفہ تصور ثلاثہ کی اہمیت یوں بیان فرما رہے ہیں : پیر کامل صورت ظل الٰہ یعنی دید پیر دید کبریا برکہ پیر وذات اور یک نہ دید نے مرید نے مرید نے مرید ’’پیر کامل اللہ کے سائے کی صورت ہوتا ہے یعنی پیر کو دیکھنا حقیقت میں اللہ ہی کو دیکھنا ہے۔ جس نے پیر اور اللہ کی ذات کو ایک نہ دیکھا وہ ہرگز مرید نہیں ہے مرید نہیں ہے مرید نہیں ہے۔‘‘ اسی عقیدے کا یہ اثر ہے کہ معین الدین اجمیری نے کہا کہ ’’روز قیامت اگر اللہ تعالیٰ کا جمال میرے پیر کی صورت میں ہوگا تو دیکھوں گا ورنہ اس کی طرف منہ بھی نہ کروں گا۔‘‘ [2] بابا فرید گنج شکر نے کہا: ’’اگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ میرے پیر کی صورت کے سوا کسی دوسری صورت میں اپنا جمال یا کمال دکھائے گا تو میں اس کی طرف آنکھ بھی نہ کھولوں گا۔‘‘ [3] اور شیخ محمد صادق نے کہا: ’’اللہ کا دیدار بھی اگر پیر دستگیر کی صورت میں ہوا تو دیکھوں گا ورنہ اسے بالکل نہ چاہوں گا۔‘‘[4]
[1] تجدید تصوف وسلوک: ص ۴۴۳۔ [2] ریاض السالکین: ص ۲۳۱۔ [3] اقتباس الانوار: ص ۲۹۰۔ مطبوعہ مجتبائی دہلی بحوالہ ایضاً۔ [4] ریاض السالکین: ص ۲۳۱۔