کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 730
مگر آج کا نام نہاد مسلمان شرک میں مشرکین مکہ سے دو چار ہاتھ آگے نکل گیا ہے وہ کم از کم مصیبت کے وقت تو صرف اللہ کو پکارتے تھے، مگر یہ لوگ اس وقت بھی اپنے مشکل کشاؤں کو پکارتے ہیں اور شرک سے باز نہیں آتے، شیطان نے ان پر ایسا تسلط جما رکھا ہے کہ مرتے وقت بھی اللہ کو پکارنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔
اس عقیدے کی بنیاد دراصل تصور شیخ کا عقیدہ ہے۔ صوفیاء نے سلوک کی منازل طے کرانے کے تین درجے مقرر کر رکھے ہیں :
(۱)فنا فی الشیخ (۲) فنا فی الرسول (۳) فنا فی اللہ
فنا فی الشیخ کے درجے کی ابتداء تصور شیخ سے کرائی جاتی ہے تصور شیخ سے مراد صرف پیر کی ’’غیر مشروط اطاعت‘‘ ہی نہیں ہوتی بلکہ اسے یہ ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ اس کا پیر ہر وقت اس کے حالات سے باخبر رہتا ہے اور بوقت ضرورت اس کی مدد کو پہنچ جاتا ہے اس عقیدے کو مرید کے ذہن میں راسخ کرنے کے لیے اسے یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ ہر وقت پیر کی شکل کو اپنے ذہن میں رکھے۔ یہی واہمہ اور سبق بسا اوقات ایک حقیقت بن کر سامنے آنے لگتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تو مسلمانوں کو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر مشروط اطاعت کا حکم دیا تھا لیکن صوفیاء کی اس قسم کی تعلیم مرید اور پیر کو عبد اور معبود کے مقام پر لاکھڑا کرتی ہے جس کا کسی نبی کو بھی حق نہ تھا۔ صوفیاء نے پیری کے فن کو خاص تکنیک دے کر عوام پر اس طرح مسلط کر دیا ہے کہ کوئی آدمی اس وقت تک اللہ کے ہاں رسائی یا ہی نہیں سکتا جب تک باقاعدہ کسی سلسلہ طریقت میں داخل نہ ہو۔ پہلے تصور شیخ کی مشق کرے حتیٰ کہ فنا فی الشیخ ہو جائے یعنی اسے اپنی ذات کے لیے حاضر وناظر افعال وکردار اور گفتار کو دیکھنے اور سننے والا سمجھنے لگے تب جا کر یہ منزل ختم ہوئی ہے، عملاً ہوتا یہ ہے کہ مرید بیچارے ساری عمر فنا فی الشیخ میں ہی غوطے کھاتے کھاتے ختم ہو جاتے ہیں یہ گویا اللہ اور اس کے رسول سے بیگانہ کرنے اور اپنا غلام بنانے کا کارگر اور کامیاب حربہ ہے چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی کا اقتباس اس حقیقت پر پوری روشنی ڈالتا ہے۔
’’تصور شیخ ‘‘کا گمراہ کن عقیدہ
ان صوفیا کے طریق میں بعض ایسی چیزیں ہیں جو نصوص میں وارد نہیں ۔ شرط طریق ہیں اور شرط بھی اعظم واہم چنانچہ تصور شیخ باوجودکہ کسی نص میں وارد نہیں اور پھر خطرناک بھی ہے اور بعض کو اس میں غلو بھی ہوگیا ہے اور اسی خطرہ وغلو کے سبب مولانا شہید اس کو منع فرماتے تھے مگر باوجود ان باتوں کے اکابر اس کو مقصور فرماتے ہیں ۔ چنانچہ انوار العارفین ’’ذکر تصور شیخ‘‘ میں کنز الہدایہ بحوالہ مکتوبات مجدد صاحب کا ارشاد نقل ہے کہ ’’ذکر