کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 72
دیگر لوگوں کے ساتھ گرفتار ہو کر دربار نبوت میں پہنچیں ۔ جب یہاں سے شرف و عزت حاصل کرنے کے بعد واپس پلٹیں ، واپس جا کر عدی کو سمجھایا اور عدی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ بتاتے ہیں : ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا: عدی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے سے کیوں بھاگتے ہو؟ کیا اللہ کے سوا اور کوئی عبادت کے لائق ہے؟ ’’اللہ اکبر‘‘ کہنے سے کیوں منہ موڑتے ہو؟ اللہ عزوجل سے بڑا کوئی ہے؟ مجھ پر ان کلمات، آپ کی سادگی اور بے تکلفی نے ایسا اثر کیا کہ میں فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا جس سے آپ خوش ہوئے اور فرمانے لگے مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ سے مراد یہود اور اَلضَّآلِّیْنَ سے مراد نصاریٰ ہیں ۔‘‘ ایک اور حدیث میں ہے کہ یہ تفسیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدی رضی اللہ عنہ کے سوال پر فرمائی تھی۔[1] انعام سے ہماری مراد حقیقی اور پائیدار انعامات ہیں جو راست روی اور خدا کی خوشنودی کے نتیجے میں ملا کرتے ہیں نہ کہ وہ عارضی اور نمائشی انعامات جو پہلے بھی فرعونوں ، نمرودوں اور قارونوں کو ملتے رہے ہیں اورآج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے بڑے بڑے ظالموں اور بدکاروں اور گمراہوں کو ملے ہوئے ہیں ۔[2] سورۂ فاتحہ ختم کر کے آمین کہنا مستحب ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں : ’’اے اللہ تو قبول فرما۔‘‘ دلیل:… وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے، وہ کہتے ہیں : ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ ﴿غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنo﴾ کہہ کر ’’آمین‘‘ کہتے تھے اور آواز دراز کرتے تھے۔‘‘[3]
[1] الطبری: ۱۹۵، ۰۲۹۔ دیکھیے: تفسیر ابن کثیر: ۱/۷۰۔ صحیح لغیرہ۔ [2] تفہیم القرآن: ۱/۴۵۔ [3] ترمذی، کتاب الصلوۃ، باب ما جاء فی التامین، رقم: ۲۴۸۔ و صححہ الالبانی و ابو داود: ۹۳۳۔ مسند احمد: ۴/۳۱۸ دیکھیے: ابن کثیر۔