کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 715
ایمان رکھتے ہیں ۔‘‘ چنانچہ جب آپ اپنے عالم الغیب ہونے کی دلیل کے ساتھ نفی کر رہے ہیں ، جس طرح کہ قرآن کا کہنا ہے تو کوئی اور غیب کیسے جان سکتا ہے؟ اور اگر کوئی ایسا دعویٰ کرتا ہے تو شارع نے اس کے پاس جانے سے اور دریافت کرنے سے سختی سے روکا ہے۔ مسلم شریف اور ابو داؤد کی حدیث کے مطابق ایسے بندے کے پاس جا کر دریافت کرنے والے کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوتی اور اس کی تصدیق کرنے والا دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بری ہو جاتا ہے۔[1] عورت کی پیدائش کس لیے؟ سوال : عورت کو اللہ نے کس سے پیدا کیا اور کس لیے پیدا کیا؟ جواب : اماں حوا علیہا السلام کو اللہ عزوجل نے آدم علیہ السلام سے پیدا کیا تاکہ آدم علیہ السلام ان سے سکون حاصل کریں ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ہُوَالَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْہَا﴾ (الاعراف:۱۸۹) ’’وہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا، تاکہ وہ اس کی طرف (جاکر) سکون حاصل کرے۔‘‘ چنانچہ جو عورت تو اپنے شوہر کے لیے سکون کا باعث ہے وہ اپنی تخلیق کے مقصد کو پورا کر رہی ہے اگر نہیں تو ایسی عورت کو غور کرنا چاہیے۔ اولاد ہونے پر مشرکین مکہ کا رویہ سوال : اولاد ہونے پر مشرکین مکہ کا کیا رویہ ہوا کرتا تھا؟ جواب : اس آیت (الاعراف: ۱۹۰) کے مخاطب اصل میں مشرکین مکہ ہیں ، ابتدا میں سیّدنا آدم وحوا کا ذکر ضرور ہے مگر بعد میں روئے سخن دور نبوی کے مشرکین کی طرف مڑ گیا ہے، جن کی عادت تھی جب بچہ پیٹ میں ہوتا تو اس کی سلامتی اور تندرست وصحیح بچہ پیدا ہونے کے لیے اللہ ہی سے دعائیں کیا کرتے تھے لیکن جب صحیح وسالم بچہ پیدا ہو جاتا تو اللہ کے اس عطیہ میں دوسروں کو بھی شکریے کا حصہ دار ٹھہرا لیتے اور ان کے نام ایسے رکھ دیتے جن میں شرک پایا جاتا مثلاً عبدالشمس، عبدالعزیٰ، عبدمناف وغیرہ اور نذریں نیازیں بھی اپنے دیوی دیوتاؤں کے آستانوں پر چڑھایا کرتے تھے۔ یہ حالت تو دور نبوی کے مشرکین کی تھی مگر آج کے
[1] دیکھئے: تیسیر القرآن: ۲/ ۱۲۳۔