کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 711
دعا اور اس کے آداب و مسائل سوال : اللہ عزوجل نے دعا کے کیا آداب بتائے ہیں ؟ جواب : فرمان الٰہی ہے: ﴿اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَo وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَo﴾ (الاعراف: ۵۵۔۵۶) ’’اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور خفیہ طور پر پکارو، بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد مت پھیلاؤ اور اسے خوف اور طمع سے پکارو، بیشک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔‘‘ یعنی اللہ کو عاجزی اور چپکے سے پکارا جائے اور ڈر کر یا طمع کے ساتھ پکارا جائے دعا میں زیادتی نہ کی جائے۔ سوال : دعا میں زیادتی کیا ہے؟ جواب : بندے کا اللہ سے ناروا، سوال کرنا، یا سوال کرنا بند کر دینا یا پھر انتہائی بلند آواز سے دعا کرنا یہ سبھی دعا میں زیادتی کہلاتا ہے جن سے روکا گیا ہے۔[1] سوال : کن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں : جواب : (۱)ایک مسلمان کا اپنے بھائی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں دعا کرنا۔[2] (۲)جو آسانیوں میں بکثرت دعا کرتا ہے۔[3] (۳) مظلوم کی۔ [4] (۴) والد کی بچے کے حق میں اور مسافر کی۔[5] (۵) مجبور شخص۔[6] سوال : قبولیت دعا کی گھڑیاں کون سی ہیں ؟ جواب : (۱) رات کا آخری تہائی۔[7] (۲) روزے دار جب افطار کرے۔[8] (۳) فرض نمازوں
[1] دیکھئے تفسیر سعدی: ۳/ ۴۰۔ [2] مسلم، الذکر والدعا، باب فضل الدعاء للمسلمین بظہر الغیب۔ [3] ترمذی، ابواب الدعوات، باب ماجاء ان دعوۃ المسلم مستجابۃ۔ [4] مسلم، الایمان، باب الامر بالایمان، باللہ ورسولہ۔ [5] ابوداود، السلسلۃ: ۵۹۶۔ [6] النمل: ۶۲۔ [7] بخاری۔ [8] ابن ماجہ: ۱۷۷۵۔