کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 707
عورت کے لیے قید خانے کا نام دے رکھا ہے اور پردے کو ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں اور یہ سب کچھ سکھائی ہوئی چالیں ہیں ۔[1]
اگر یہ سب قسمت کا لکھا ہے تو قصور وار آدم کیوں ؟
سوال : یہ سب جب قسمت آدم میں لکھا جا چکا تھا تو پھر آدم قصور وار کس لیے؟
جواب : اس طرح کے سوالات قرآن کریم میں اور بھی متعدد مقامات پر پیدا ہوتے ہیں جیسے اسی سورۃ کے ایک مقام پر فرمایا کہ ہم نے جنوں اور انسانوں کی اکثریت کو جہنم کے لیے پیدا کیا۔‘‘ (الاعراف: ۱۷۹) یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جنوں اور انسانوں کی اکثریت کو پیدا ہی جہنم کے لیے کیا گیا ہے تو پھر اس میں جنوں اور انسانوں کا قصور کیا ہے؟ اسی طرح احادیث صحیحہ میں بھی یہ مضمون بکثرت وارد ہے مثلاً جب شکم مادر میں روح پھونکی جاتی ہے تو ساتھ ہی فرشتہ یہ بھی لکھ دیتا ہے کہ یہ شخص جنتی ہوگا یا جہنمی؟ اور ایسے مقامات قرآن وسنت میں بے شمار ہیں ، جہاں انسان یہ سوچتا ہے کہ ہم تو قدرت کے ہاتھ میں کھلونا ہیں مشیت تو اللہ کی پوری ہوتی ہے پھر ہمیں سزا کیوں ملے گی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کو کسی چیز کے نتیجہ کے متعلق پیشگی علم ہونا یا اس کا علم غیب کسی انسان کو اس بات پر مجبور یا اس کا پابند نہیں بناتا کہ وہ وہی کچھ کرے جو اللہ کے علم یا اس کی مشیت یا تقدیر میں لکھا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ انسان اپنے پورے ارادہ یا اختیار سے کرنے والا ہوتا ہے اس کا اللہ کو پہلے سے علم ہوتا ہے اس بات کو ہم یہاں ایک مثال سے سمجھائیں گے۔
ایک بادشاہ اپنی مہمات میں اکثر اپنے درباری نجومی سے مشورہ لیا کرتا تھا نجومی اسے سیاروں کی چال کے زائچے تیار کر کے امور غیب سے مطلع کر دیتا نجومی کی یہ باتیں درست ثابت ہوتیں اور کبھی کوئی خبر غلط بھی ثابت ہو جاتی۔ ایک دفعہ یہ بادشاہ اس نجومی سے خفا ہوگیا اور وہ اس نجومی کو کسی بہانے سزا دینے کے متعلق سوچنے لگا، اسے یک دم ایک خیال آیا اور اس نے ایک کمرہ بنانے کا حکم دیا جس کے چاروں طرف دروازے ہوں جب ایسا کمرہ تیار ہوگیا تو اس نے اس نجومی کو بلا کر کہا: میں اس کمرے میں داخل ہونے والا ہوں تم حساب لگا کر بتاؤ کہ میں اس کمرے کے کس سمت والے دروازے سے باہر نکلوں گا۔
نجومی کو بھی بادشاہ کی خفگی کا علم تھا، اور سمجھتا تھا یہ سوال دراصل اس کی زندگی اور موت کا سوال ہے، چنانچہ اس نے کہا کہ سوال کا جواب تو میں دے دوں گا لیکن میری شرط یہ ہے کہ میں اس سوال کا جواب لکھ کر آپ کے کسی معتمد علیہ وزیر کے پاس سربمہر کر کے امانت رکھ دیتا ہوں ، آپ یہ جواب اس وقت دیکھیں جب
[1] تیسیر القرآن: ۲/ ۳۶۔ ۳۷۔