کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 701
جواب : علماء کا اجماع ہے کہ حمل ساقط کرانا جائز نہیں ہے بالخصوص جب اسے ایک سو بیس دن ہو جائیں کیونکہ اس مدت کے بعد بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے ساقط کرانے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ اس سے ماں کی زندگی کوفی الواقع خطرہ ہو، خیال کریں اگر یہ بچہ زندہ ہو تو کیا اس عیب اور نقص کی وجہ سے اسے قتل کرنا جائز ہوتا؟ اور اس مسئلہ میں اجماع ہے۔[1]
سوال : میں بیمار رہتی ہوں ضیق النفس (دمہ) کی مریضہ ہوں اس سے پہلے ڈاکٹر کے کہنے پر دو بار اسقاط کرا چکی ہوں ڈاکٹر نے کہا تھا کہ بچے آپریشن سے ہوں گے اور یہ اسقاط شوہر کی رضا مندی سے کرایا تھا تو کیا یہ حرام ہے یا اس میں کفارہ وغیرہ واجب ہے؟
جواب : (۱)… حمل ساقط کرانا جائز نہیں جب حمل ٹھہر جائے تو اس کی حفاظت کرنا واجب اور اسے نقصان پہنچانا یا کسی ذریعے سے اسے ساقط کرانا حرام ہے۔ یہ ایک امانت ہے جو اللہ نے اس ماں کے شکم میں رکھی ہے تو اس کا ایک حق ہے اس کو کسی طرح کا ضرر پہنچانا یا تلف کرنا جائز نہیں ، اس بارے میں طبیب اور ڈاکٹر کی بات قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یہ ایک شرعی حکم ہے اور شرعی دلائل کی رو سے حمل ساقط کرانا حرام ہے اور یہ مسئلہ کہ ولادت آپریشن سے ہی ہوگی تو یہ کوئی ایسا سبب نہیں ہے جس سے حمل ساقط کرانا جائز ہو جائے، بہت سی عورتیں آپریشن سے دو چار ہوتی ہیں اور اسی طرح ان کے ہاں ولادت ہوتی ہے بہرحال ڈاکٹر اور طبیب انسان ہے اس سے غلطی بھی ہو جاتی ہے اور درست بھی کہتے ہیں مگر اس بات میں اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
(۲)… دوسرا مسئلہ کفارے کا، اگر حمل کے جنین میں روح پڑ چکی تھی، اور بچہ حرکت کرنے لگ گیا تھا پھر اسے ساقط کرایا گیا اور وہ مر گیا تو اس طرح یہ عورت ایک جان کی قاتل ہے اس پر کفارہ واجب ہے اور وہ ہے ایک گردن کا آزاد کرنا، اگر نہ پائے تو دو ماہ کے روزے سے رکھنا اللہ کے ہاں توبہ کی قبولیت کے لیے۔ اور یہ چار ماہ میں ہوتا ہے کہ بچے میں جان پڑ جاتی ہے۔
بہرحال یہ معاملہ بہت بڑا ہے اس میں تساہل کرنا جائز نہیں اگر عورت بیماری کے باعث حمل کی متحمل نہ ہو سکتی ہو تو اسے چاہیے کہ مانع حمل ادویات استعمال کرے جس سے حمل ایک مدت تک کے لیے مؤخر ہو جائے اس کے بعد وہ اپنی صحت اور طاقت میں لوٹ آئے گی۔[2]
سوال : ایسی چیزیں استعمال کرنا جن سے حمل ساقط ہو جائے ان کا کیا حکم ہے؟
[1] محمد بن عبدالمقصود احکام ومسائل خواتین ص ۸۰۵۔
[2] صالح بن فوزان حوالہ ایضًا: ص ۸۰۶۔