کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 700
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ کا فتویٰ اسی پر ہے۔[1] سوال : کیا مانع حمل ادویات کا استعمال درست ہے؟ جواب : انتہائی مجبوری اور شرعی عذر کی بنا پر جس کی وجہ سے عورت کی جان کو خطرہ ہو اس طرح کی ادویات کے استعمال مارکیٹ میں دستیاب ہیں ، وہ تمام مضر اثرات رکھتی ہیں مسلسل استعمال کی وجہ سے عورت کی صحت خراب کر دیتی ہیں ۔ صحابی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عزل کرتے تھے۔[2] اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے علماء نے ایسی ادویات کے استعمال کی اجازت دی ہے لیکن نہ ہی عزل قابل اعتماد چیز تھی اور نہ یہ ادویات قابل اعتماد ہیں ، مختلف انجکشن اور ادویات کے بعد بھی اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو پیدا ہونے والی روح پیدا ہو کر رہتی ہے۔ بہرحال یہ ایک احتیاطی تدبیر ہے جو صرف شرعی عذر کی بنا پر ہی قابل قبول ہے آج کل کچھ ڈاکٹر حضرات پیشہ ورانہ طور پر یہ کام کرتے ہیں جو بالکل غلط ہے۔[3] ابن العثیمین رحمہ اللہ مانع حمل گولیوں کے استعمال کی دو شرطیں بیان کرتے ہیں : شرط اول: اسے اس کی ضرورت ہو مثلاً یہ کہ وہ مریضہ ہو اور وہ ہر سال حمل برداشت نہ کر سکے، یا وہ جسمانی طور پر نحیف وکمزور ہو یا کوئی دیگر موانع ہوں کہ اگر وہ ہر سال حاملہ ہو تو وہ اس کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ شرط ثانی: یہ کہ شوہر اسے اجازت دے کیونکہ اولاد بارے میں اور بچے جننے کے متعلق شوہر کو حق حاصل ہے لیکن ان گولیوں کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ، لیکن یاد رہے کہ یہ ابدی حصول کے طور پر نہ ہو یعنی یہ کہ مانع حمل گولیاں اس طرح استعمال نہ کرے کہ اس سے ہمیشہ کے لیے حمل نہ ہو کیونکہ یہ تو نسل کو کاٹنا ہے۔[4] سوال : مجھے پانچ ماہ کا حمل ہے اور یہ میرا دوسرا حمل ہے پہلے حمل میں بچے میں کچھ عیب ونقص سامنے آیا تھا اس لیے ساقط کرا دیا گیا اب یہ پانچ ماہ کا ہے اور ہسپتال والوں نے خاص قسم کے ٹیسٹ ایکسرے کرانے کا کہا ہے جس سے بچے کی صحت کا علم ہوگا اگر ثابت ہو کہ بچہ ناقص الخلقت ہے تو کیا اس کا اسقاط کرا دینا جائز ہوگا؟
[1] حوالہ ایضاً ص ۹۰۔ [2] بخاری، کتاب النکاح، باب العزل: ۵۳۰۷۔ مسلم: ۱۴۴۰۔ [3] حوالہ ایضًا۔ [4] تحفہ دولہا ودلہن: ص ۳۶۸۔