کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 70
(۱)پوجا اور پرستش (۲) اطاعت و فرمانبرداری
(۳) بندگی اور غلامی… اس مقام پر تینوں معانی بیک وقت مراد ہیں ۔[1]
اور یہ عبادت تین قسم کی ہے، جیسے کہ ہم تشہد میں اس کا اقرار کرتے ہیں : ((اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَ الصَّلَوَاتُ وَ الطَّیِّبَاتُ)) یعنی ہماری تمام قلبی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں ۔ قلبی عبادات میں توکل، خوف و امید اور محبت شامل ہیں ۔ بدنی عبادت میں نماز روزہ، حج اور مالی عبادت میں زکوٰۃ و صدقہ۔[2]
یہاں عبادت کو استعانت سے پہلے لایا گیا ہے تو اس لیے کہ پہلی چیز دوسری کے لیے وسیلہ ہے اور وسائل کو پہلے ذکر کرنا یہ حصول مطالب کا سبب ہوا کرتا ہے۔[3]
بعض سلف کا فرمان ہے سارے قرآن کا راز سورۂ فاتحہ میں ہے اور پوری سورت کا راز اس آیت ﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ میں ہے۔ آیت کے پہلے حصے میں شرک سے بیزاری کا اعلان ہے اور دوسرے جملے میں اپنی طاقتوں اور قوتوں کے کمال کا انکار ہے۔[4]
اس آیت میں (نَعْبُدُ) اور (نَسْتَعِیْنُ) سے پہلے (اِیَّاکَ) کا لفظ لایا گیا ہے جو حصر کا بھی فائدہ دیتا ہے اور تاکید کا بھی ۔ اس کا معنی یوں بنتا ہے کہ ہم صرف اور صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں ، تیرے سوا کسی کی عبادت کرتے ہیں اور نہ کریں گے اور نہ ہی کسی سے مدد مانگتے ہیں اور نہ ہی مانگیں گے۔ گویا شرک کی جملہ اقسام کے استیصال کے لیے یہ اکیلی آیت ہی کافی ہے۔[5]
استعانت کا مفہوم
استعانت کا مطلب ہے: مدد چاہنا۔ انسان دنیا میں جو بھی کام کرتا ہے وہ کسی فائدے کے حصول کے لیے ہوتا ہے یا کسی تکلیف یا نقصان کو دُور کرنے کے لیے۔ اب ان کاموں کے لیے اگر وہ اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کو پکارے یا اس سے مدد طلب کرے جو اس کے پاس موجود نہ ہو، یعنی ظاہری اسباب مفقود ہوں تو یہ صریح شرک ہے۔ درج ذیل شعر ملاحظہ فرمائیے جو اس کی مثال بن سکتا ہے:
امداد کن امداد کن از بند غم آزاد کن
در دین و دنیا شاد کن یا شیخ عبدالقادر!
اب کوئی بندہ اس وظیفے کو اپنے گھر یا شیخ کی قبر پر جا کر پڑھے تو یہ شرک ہو گا کیونکہ اس میں عقیدہ پایا جاتا ہے کہ یہ فوت شدہ بزرگ میری پکار کو سن بھی رہے ہیں پھر میری مشکل کشائی اور حاجت برآری کا اختیار یا
[1] تفہیم القرآن: ۱/۴۴-۴۵۔
[2] تیسیر القرآن: ۱/۳۶۔
[3] فتح القدیر: ۱/۲۸۔
[4] تفسیر ابن کثیر: ۱/۶۳۔
[5] تیسیر القرآن: ۱/۳۷۔