کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 697
سوال : بھوک کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنے کا کیا گناہ ہے؟ جواب : اسلام اسے بڑے بڑے مہلک گناہوں میں شمار کرتا ہے۔ سوال : مالتھس کا نظریہ آبادی کیا تھا اور کیا وہ سچا ثابت ہوا؟ جواب : اس کا نظریہ تھا کہ آبادی جیومیٹری کے حساب سے بڑھ رہی ہے یعنی ۱، ۲، ۴، ۸، ۱۶ کے حساب سے جبکہ وسائل پیداوار حساب کی نسبت سے بڑھ رہے ہیں یعنی ۱، ۲، ۳، ۴، ۵ کے حساب سے۔ اس کے نظریہ کے مطابق اگر یہ بڑھوتری یونہی جاری رہی تو برطانیہ جلد افلاس کا شکار ہو جائے گا لیکن ہوا اس کے برعکس اور اسے ’’جھوٹا پیش گو‘‘ قرار دیا گیا۔[1] سوال : کیا منصوبہ بندی جائز ہے؟ جواب : نہیں یہ ناجائز ہے، دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اَلَّا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاہُمْ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ مَا بَطَنَ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَo﴾ (الانعام: ۱۵۱) ’’کہہ دیجیے آؤ میں پڑھوں جو تمھارے رب نے تم پر حرام کیا ہے، (اس نے تاکیدی حکم دیا ہے) کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ خوب احسان کرو اور اپنی اولاد کو مفلسی کی وجہ سے قتل نہ کرو، ہم ہی تمھیں رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی اور بے حیائی کے قریب نہ جاؤ، جو اِن میں سے ظاہر ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے مگر حق کے ساتھ۔ یہ ہے جس کا تاکیدی حکم اس نے تمھیں دیا ہے، تاکہ تم سمجھو۔ ‘‘ دوسری جگہ فرمایا: ﴿وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَ اِیَّاکُمْ اِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًاo﴾ (بنی اسراء یل: ۳۱) ’’اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی انھیں رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ بے شک ان کا قتل ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘ منصوبہ بندی کے داعی ان کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ بچے زیادہ ہوئے تو کھائیں گے کہاں
[1] دیکھئے تفسیر ایضاً۔