کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 696
جرم پر مشیت کو بہانہ نہیں بنانا چاہیے
حدیث میں آتا ہے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے اور سیّدنا علی اور سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کے درمیان بیٹھ کر بات کرنے لگے دوران گفتگو آپ نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا تم نماز تہجد کے لیے اٹھتے ہو؟ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہماری اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہیں اگر وہ واپس بھیج دے تو ہم نماز پڑھ لیں گے۔ اس جواب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے، آپ اپنی ران پر ہاتھ مارتے جاتے ہیں اور یہ آیت پڑھتے جاتے ہیں :
﴿کَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًاo﴾ (الکہف: ۵۴)
’’انسان اکثر چیزوں میں جھگڑالو واقع ہوا ہے۔‘‘[1]
والدین کی نافرمانی
سوال : والدین کی نافرمانی کو اسلام کس نظر سے دیکھتا ہے؟
جواب : اسلام والدین کی نافرمانی کو سات مہلک گناہوں میں شمار کرتا ہے۔[2]
افلاس کے ڈر سے اولاد قتل کرنا، نظریہ آبادی اور منصوبہ بندی کے احکام و مسائل
سوال : مشرک اپنی اولاد کو کیوں قتل کیا کرتے تھے؟
جواب : دور جاہلیت میں اولاد کو تین وجوہ سے قتل کیا جاتا تھا:
(۱)… بیٹیوں کو اس عار کی وجہ سے زندہ درگور کرتے تھے کہ کوئی نہ کوئی ان کا داماد بنے گا جس کے آگے ان کی آنکھیں نیچی ہوں گی اور اس لیے بھی کہ اگر وہ کسی دوسرے قبیلے میں چلی گئی یا بیاہی گئی تو کئی پیچیدہ مسائل پیدا ہو جائیں گے کیونکہ ان میں رائج قبائلی نظام عصبیت کے سہارے چلتا اور جھگڑوں اور جنگوں پر ختم ہوتا تھا۔
(۲)… اللہ پر عدم توکل بعض لوگ اپنی اولاد کو خواہ بیٹا ہو یا بیٹی، اس لیے مار ڈالتے تھے کہ ان کا خرچ برداشت نہ کر سکیں گے یا اپنا معیار زندگی برقرار نہ رکھ سکیں گے اور اس جرم میں آج کی دنیا کا پورا معاشرہ شریک ہے جو خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر برتھ کنٹرول، اسقاط حمل اور مردوں کو بانجھ بنانے کے طریقے دریافت کر کے اس جرم کا اعلانیہ ارتکاب کر رہے ہیں اور یہ کام حکومتوں کی سرپرستی میں ہوتے ہیں ۔
(۳)… بتوں کے نام پر منت…[3]
[1] بخاری، کتاب التفسیر: ۴۷۲۴۔
[2] دیکھئے تفسیر ایضاً۔
[3] تیسیر القرآن: ۱/ ۶۶۰۔ ۶۶۱۔