کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 69
لفظ رب تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے:
(۱) کسی چیز کی درجہ بدرجہ تربیت و خبر گیری کر کے اسے درجہ کمال تک پہنچانا
(۲) پرورش کرنے والا حاکم و فرماں روا
(۳) مالک و آقا۔[1]
یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک ہے جو دوسروں پر اضافت کے ساتھ ہی بولا جا سکتا ہے۔[2]
﴿الْعٰلَمِیْنَ﴾ اس کی مفرد ’’عالم‘‘ ہے یہ عموماً سبھی مخلوقات پر بولے جانے کی وجہ سے مفرد استعمال ہوتا ہے لیکن یہاں اللہ کی قدرت کاملہ کے اظہار کے لیے جمع استعمال ہوا ہے۔ لغوی لحاظ سے حواس خمسہ کے ذریعے معلوم ہونے والی چیز پر عالم کا لفظ بولا جاتا ہے یہاں اس سے غیب، حاضر، انسانوں ، جنوں کا عالم (جہاں ) مراد ہے جن کی پرورش کرنے والی ایک اللہ کی ذات ہے۔[3]
﴿اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : رب العالمین کے بعد ﴿اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ کا ذکر ڈراوے کے بعد امید دلانے کے لیے ہے۔[4]
﴿مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾: ﴿اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ کہنے کے بعد مالک روز جزا کہنے سے یہ بات نکلتی ہے کہ وہ نرا مہربان نہیں بلکہ منصف بھی ہے منصف بھی ایسا بااختیار کہ آخری فیصلے کے روز وہی پورے اقتدار کا مالک ہو گا۔[5]
قرآن میں لفظ ’’دین‘‘ چار معانی میں آیا ہے:
(۱) اللہ تعالیٰ کی مکمل حاکمیت
(۲) انسانوں کی مکمل عبودیت
(۳) قانون جزا و سزا یا تعزیرات
(۴) قانون جزا و سزا کو نافذ کرنے کی قوت۔
اس آیت میں دین کا لفظ مندرجہ بالا چاروں معانی دے رہا ہے۔[6]
﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾: عبادت کا لفظ عربی زبان میں تین معنوں میں استعمال ہوا ہے:
[1] تفہیم القرآن: ۱/۴۴۔ تیسیر القرآن: ۱/۳۵۔
[2] تفسیر ابن کثیر: ۱/۵۸۔
[3] تیسیر القرآن: ۱/۳۵۔
[4] تفسیر ابن کثیر: ۱/۶۰۔ فتح القدیر: ۱/۲۶۔
[5] تفہیم القرآن: ۱/۴۴۔
[6] تیسیر القرآن: ۱/۳۶۔