کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 68
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ٧﴾ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔ بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔ بدلے کے دن کا مالک ہے۔ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں ۔ ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں ۔ تفسیر:…سورۂ فاتحہ اصل میں تو ایک دعا ہے لیکن دعا کی ابتدا اس ہستی کی تعریف سے کی جا رہی ہے جس سے ہم دعا مانگنا چاہتے ہیں ۔ یہ گویا اس امر کی تعلیم ہے کہ دعا جب مانگو تو مہذب طریقہ سے مانگو۔ یہ کوئی تہذیب نہیں ہے کہ منہ کھولتے ہی جھٹ اپنا مطلب پیش کر دیا۔ تہذیب کا تقاضا یہ ہے کہ جس سے دعا کر رہے ہو پہلے اس کی خوبی کا، اس کے احسانات اور اس کے مرتبے کا اعتراف کرو۔[1] ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ﴾ میں الف لام استغراق کا ہے، یعنی ہر قسم کی حمد اللہ ہی کے لیے ہے۔ مثلاً آپ کسی آدمی کی بھی اس کی اچھائی پر تعریف کرتے ہیں یہ بھی گویا اللہ کی تعریف ہے کہ اس نے اسے اس اچھائی سے نوازا ہے۔ الحمد للہ، اللہ کے محبوب ترین کلام میں سے ایک ہے۔ حدیث میں ہے: ((اَحَبُّ الْکَلَامِ اِلَی اللّٰہِ اَرْبَعٌ))چار کلمے اللہ کو محبوب ترین ہیں : سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَر[2] جامع ترمذی میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’الحمد للّٰہ افضل دعا ہے۔‘‘[3] مسلم، نسائی اور احمد میں ہے : ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَأُ الْمِیْزَانَ)) ’’الحمد للّٰہ(کہنا) میزان کو بھر دیتا ہے۔‘‘ حمد و شکر میں یہ فرق ہے کہ حمد لازم مثلاً حسن و شجاعت اور متعدی مثلاً سخاوت کرنا، کسی پر احسان کرنا دونوں قسم کی خوبیوں پر بولی جاتی ہے جبکہ شکر فقط متعدی خوبیوں پر ہوتا ہے۔[4] ﴿رَبِّ﴾ کا معنی یہاں مالک ہے۔[5]
[1] تفہیم القرآن: ۱/۴۳۔ [2] مسلم، الآداب، باب کراہۃ التسمیۃ بالاسماء القبیحۃ: ۲۱۳۷۔ [3] الدعوات، باب ما جاء ان دعوۃ المسلم مستجابۃ: ۳۳۸۳ و صححہ الالبانی۔ [4] دیکھیے: فتح القدیر: ۱/۲۴-۲۵۔ [5] جامع البیان، ص: ۶۔