کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 67
آیت کا بعض حصہ ہے۔ یا یہ صرف فاتحہ کی ایک آیت ہے دوسری سورتوں کی نہیں ۔
بہرحال مجمع ملک فہد نے جو قرآن طبع کیا ہے اس میں معتدل رویہ اپناتے ہوئے انہوں نے ’’بسم اللہ‘‘ کو سورۃ فاتحہ کا جزء قرار دیتے ہوئے اس پر آیت نمبر (۱) لکھا ہے۔ البتہ باقی سورتوں میں اسے سورتوں کا جزء قرار نہیں دیا گیا۔[1]
﴿بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم﴾
بسم اللہ سے قبل لفظ ’’أَقْرَئُ‘‘ محذوف ہے جس کے معنی ہیں ’’میں پڑھنے لگی ہوں ۔‘‘
لفظ ’’اَللّٰہ‘‘ ’’اَلْاِلٰہ‘‘ (بمعنی معبود) سے ہے۔ دو لاموں کے درمیان الف گر گیا، اب لام تعریف اور دوسرا لام اکٹھے ہوئے ایک دوسرے میں مدغم ہو گیا تو لفظ اللہ بن گیا۔[2]
﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم﴾
یہ ’’رَحِمٌ‘‘ سے مشتق دو مبالغے کے صیغے ہیں ’’رحمان‘‘ میں رحیم کی نسبت زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے، اس لیے ائمہ کا قول ہے کہ رحمان سے مراد دنیا و آخرت میں رحم کرنے والا اور رحیم سے صرف آخرت میں رحم کرنے والا مراد ہے جو کہ تب صرف مومنوں پر ہو گا۔[3]
انسان کا خاصا ہے کہ ایک چیز اس کی نگاہ میں بہت زیادہ ہو تو وہ اسے مبالغے کے صیغے سے بیان کرتا ہے، اگر مبالغے کا لفظ بول کر بھی سمجھتا ہے اس شے کی فراوانی کا حق ادا نہ ہوا تو پھر اسی معنی کا ایک اور لفظ بولتا ہے تاکہ وہ کمی پوری ہو جائے جو اس کے نزدیک مبالغے میں رہ گئی ہے۔ جیسے گورے کا لفظ ناکافی پا کر اس پر چٹے کا لفظ بڑھا دیتے ہیں ۔[4]
[1] دیکھیے: تیسیر القرآن: ۱/۳۴۔
[2] ابن کثیر: ۱/۵۲۔
[3] دیکھیے: ابن کثیر۔
[4] تفہیم القرآن: ۱/۴۴۔