کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 66
الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے حصے وہی آئے گا جو اس نے مانگا۔[1]
اس روایت میں مذکورہ سورت کو ہی اللہ نے ’’صلاۃ‘‘ قرار دیا ہے جس سے اس کا نام ہی ’’الصلاۃ‘‘ پڑ گیا۔ واضح ہوا کہ بندہ نماز میں یہ سورت نہ پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہو گی۔
زمانہ نزول
ترتیب نزولی کے اعتبار سے اس کا پانچواں نمبر ہے یہ اسلام کے ابتدائی دور میں پہلی سورت ہے جو یک بارگی نازل ہوئی۔[2]
فضیلت
سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ایک دن جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے اوپر ایک زور دار آواز سنی، انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: یہ آسمان کا وہ دروازہ ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا، پھر فرمایا: یہ فرشتہ ہے جو آج سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اترا، پھر اس فرشتے نے آپ کو سلام کہا اور دو نوروں کی خوش خبری دیتے ہوئے کہا یہ دو نور آپ کو دئیے جا رہے ہیں ، آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئے۔ ایک سورۃ الفاتحہ اور دوسرا سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات۔ آپ جب ان دونوں میں سے کوئی کلمہ تلاوت کریں گے تو آپ کو آپ کی طلب کردہ چیز ضرور عطا ہو گی۔[3]
اہل علم کی راجح رائے یہ ہے کہ یہ قرآن کا اجمالی خلاصہ ہے۔[4]
تعوّذ
قرآن میں ہے:
﴿فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِo﴾ (النحل: ۹۸)
’’پس جب آپ قرآن پڑھیں تو مردود شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کریں ۔‘‘
جمہور علماء کا مشہور مذہب یہ ہے کہ تلاوت سے قبل تعوذ پڑھنا چاہیے تاکہ وسوسے دُور ہو جائیں ۔[5]
تسمیہ
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ ہر سورت کے شروع میں مستقل آیت ہے یا
[1] صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ، رقم: ۸۷۷۔
[2] تیسیر القرآن: ۱/۳۲۔
[3] صحیح مسلم، کتاب فضائل القرآن، باب فضل الفاتحۃ، رقم: ۱۸۷۵۔
[4] تیسیر القرآن۔
[5] تفسیر ابن کثیر: ۱/۳۹۔