کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 65
سورۃ الفاتحۃ وجہ تسمیہ کسی بھی چیز کا اوّل حصہ فاتحہ کہلاتا ہے۔ سورۃ الفاتحہ قرآن کے اوّل میں لکھے اور پڑھے جانے کے سبب دَور نبوی سے ہی اس نام سے معروف ہو گئی۔ دیگر اسماء اس کی خوبیوں کے سبب پڑ جانے والے دیگر چند اہم نام مثلاً: ام القرآن، القرآن العظیم، السبع المثانی (بار بار پڑھی جانے والی)، الشفاء، الرقیۃ (صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسے پڑھ کر سانپ کے ڈسے سردار پر پھونکا تو وہ صحت مند ہو گیا)، الحمد اور ایک اہم نام الصلاۃ بھی آیا ہے۔[1] اسم ’’الصلاۃ‘‘ کی توضیح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز پڑھی اُس میں ام القرآن نہ پڑھی تو وہ ناقص ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ یہ فرمایا: ناقص ہے، نا تمام ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں ، تو سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے اپنے دل میں پڑھ لو، بلاشبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’میں نے نماز (الصلاۃ) اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کر دی ہے آدھو آدھ اور میرے بندے کو وہی ملے گا جو اس نے مانگا۔ تو بندہ جب کہتا ہے: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ کہتا ہے: ﴿اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے بندے نے میری ثنا کی اور جب وہ کہتا ہے: ﴿مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ تو وہ کہتا ہے: میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ اللہ فرماتے ہیں میرے بندے نے معاملہ میرے سپرد کر دیا۔ تو جب وہ کہتا ہے: ﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ اس کا کہنا ہوتا ہے یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے وہی ہے جو اس نے مانگا، پھر جب وہ کہتا ہے: ﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ
[1] دیکھیے: تفسیر ابن کثیر: ۱/۳۱۔