کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 640
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ میں موجود ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: وَمَا اٰتَاکُمُ الرَّسُولُ (الحشر: ۷) الخ پڑھی۔[1] حصول زینت اور اس کے علوم کے احکام سوال : حصول زینت کی کارروائیوں کا کیا حکم ہے؟ کیا ایسے علم کا سیکھنا جائز ہے؟ جواب : زینت کا حصول دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک تو کسی حادثے وغیرہ کے نتیجے میں لاحق عیب کو زائل کرنا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو سونے کی ناک لگوانے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی جس کی ناک ایک جنگ میں کٹ گئی تھی۔1 دوسری قسم یہ کہ اضافی حسن وجمال کا حصول مطلوب ہو۔ اس سے کسی عیب کو زائل کرنا نہیں بلکہ حسن میں مزید نکھار لانا مقصود ہونا ہے تو یہ ناجائز اور حرام ہے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بال نوچنے والی، اس کا مطالبہ کرنے والی، مصنوعی بال لگانے والی، لگوانے والی، سرمہ بھرنے والی سب پر لعنت فرمائی ہے۔ اور یہ اس لیے کہ ان کا رروائیوں کا مقصد ازالہ عیب نہیں بلکہ حسن میں کمال پیدا کرناہوتا ہے جہاں تک بیوٹی سرجری کا علم حاصل کرنے والے طالب علم کا تعلق ہے تو اس علم کے سیکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔ ہاں اس علم کو حرام مواقع پر استعمال نہیں کرنا چاہیے بلکہ جو شخص ایسا کرنا چاہیے تو اسے اس سے پرہیز کرنے کی تلقین کرنی چاہیے اس لیے کہ وہ حرام ہے کیونکہ اگر ڈاکٹر کسی بات کی تلقین کرے تو عموماً لوگوں پر اس کا گہرا اثر ہوتا ہے۔[2] دانتوں کے احکام و مسائل سوال : حد سے بڑھے ہوئے یا اضافی دانتوں کے نکالنے کا کیا حکم ہے؟ جواب : ایسے دانتوں کے نکلوانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ایسے دانت چہرے کی بدنمائی اور انسان کے لیے کوفت کا باعث بنتے ہیں ، اسی طرح ریتی وغیرہ سے انہیں برابر کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ، لیکن ان میں فاصلہ پیدا کرنا اور انہیں باریک کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس بارے میں نہی وارد ہے۔[3] سوال : دانتوں کو اس طرح ترشوانا کہ ان کے درمیان کچھ جدا ہو جائے اس کا کیا حکم ہے؟ جواب : یہ کام حرام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: المتفلجات للحسن المغیرات لخلق اللہ) لعنت ہے ایسی عورتوں پر جو اپنے دانتوں کو کریدتی یا ان میں خلا پیدا کرواتی ہیں اللہ کی خلقت
[1] صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب المتفلجات للحسن: ۵۹۳۱۔ مسلم: ۲۱۲۴۔ ابن کثیر: ۱/ ۸۳۱۔ [2] ایضًا ص ۴۷۲۔ [3] صحیح مسلم: ۱۲۲۵۔ شیخ ابن جبرین ایضاً: ۴۷۶۔