کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 638
مگر یہ مجمل اور مطلق صورت ہے جو صحیحین میں سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کون سا عمل اللہ عزوجل کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَلصَّلَاۃُ عَلَی وَقْتِہَا، ’’نماز اپنے وقت پر ادا کرنا۔‘‘ جبکہ کی روایت کے لفظ ہیں : اَلصَّلَاۃُ فِی اَوَّلِ وَقْتِہَا، ’’نماز کو اس کے اول وقت میں پڑھنا۔‘‘ سند اس کی صحیح ہے۔ مگر اس عموم سے دو اوقات مستثنیٰ ہیں ۔ ایک نماز ظہر جب گرمی سخت ہو تو اسے ٹھنڈا کر کے پڑھا جائے جیسے کہ براء کہتے ہیں ۔ صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوْا بِالصَّلَاۃِ فَإِنَّ شِدَّۃَ الْحَرِّمِنْ فَیْحِ جَہَنَّمَ۔))[1] ’’جب گرمی سخت ہو تو نماز کو ٹھنڈا کرو بلا شبہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہے۔‘‘ اور اسی طرح سیّدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کی روایت بھی ہے جو صحیحین میں مروی ہے، کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ موذن نے ظہر کی اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا ٹھنڈی کر لو، حتیٰ کہ ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلا شبہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ میں سے ہے تو جب گرمی سخت ہوا کرے تو نماز ٹھنڈی کر کے پڑھا کرو۔‘‘[2] اور دوسرا استثناء نماز عشاء کو آدھی رات تک مؤخر کرنا ہے، جہاں تک کہ لوگوں کے لیے مشقت نہ ہو، جیسے کہ حدیث میں آیا ہے۔ اور نماز فجر کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ آیا اسے منہ اندھیرے میں پڑھنا افضل ہے یا جب فضا میں سفیدی آجائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسے فجر کے اندھیرے میں پڑھنا ہی افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل یہی ہے۔ جانب سوم: ان اوقات کا جانتا جن میں نماز مکروہ اور ناجائز ہے اور اس مسئلے میں دو حدیثیں آئی ہیں ، ایک سیّدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے اور دوسری عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے اور دونوں ہی صحیح میں وارد ہیں ۔[3] سوال : نمازوں کو کس وقت پڑھنا افضل ہے؟ جواب : اول وقت میں سوائے عشاء کے، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ کے پاس سب سے افضل عمل دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَلصَّلَاۃُ فِی اَوَّلِ وَقْتِہَا، [4] ’’نماز کو اس
[1] صحیح البخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب الابراد بالظہر فی شدّۃ الحرِّ: ۵۳۳، ۵۳۴۔ ومسلم: ۶۱۵۔ [2] بخاری: ۵۳۹۔ مسلم: ۶۱۶۔ [3] محمد بن عبدالمقصور بحوالہ احکام ومسائل خواتین: ص ۲۳۸ تا ۲۴۰۔ [4] ابوداود، کتاب الصلاۃ، باب المحافظۃ علی وقت الصلوات: ۴۲۶۔ ترمذی: ۱۷۰ صحیح۔