کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 630
اور حدیث میں ہے: ’’اگر تمام روئے زمین کے اور آسمان کے لوگ کسی ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہوں تو اللہ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔‘‘ [1]
سوال : کیا قاتل کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟
جواب : جمہور سلف وخلف کا مذہب ہے کہ اگر قاتل نے اللہ کی طرف رجوع کیا اور خشوع وخضوع میں لگا رہا نیک اعمال کرنے لگا تو اللہ اس کی توبہ قبول کر لے گا۔‘‘ [2]
سوال : عورت کی کیا دیت ہے؟
جواب : اس کے جواب کے لیے سوال نمبر ۴۳ کا جواب ملاحظہ کیجئے۔
سوال : کیا کسی مسلمان کو کافر کے بدلے یا کافر کو مسلمان کے بدلے قتل کیا جا سکتا ہے؟
جواب : مومن کے بدلے کافر کے قتل کی مثال ایک تو اس یہودی کی ہے جس نے کسی مسلمان لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا تھا، البتہ کافر کے بدلے کسی مسلمان کو قتل کرنے کی کوئی دلیل نہیں ملتی بلکہ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَنْ لَا یُقْتَلَ مُؤْمِنٌ بِکَافِرٍ۔))[3]
سوال : اگر ایک مسلمان کے قتل میں کئی افراد شریک ہوں تو؟
جواب : سب کو قصاص میں قتل کر دیا جائے گا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو دھوکے سے قتل کرنے والے پانچ یا سات افراد کو قتل کیا اور کہا:
((لَو تَمَالَأَ عَلَیہ أَہْلُ صَنْعَائَ لَقَتَلْتُہُم جَمِیْعًا۔))[4]
’’اگر اس پر سارے اہل صنعاء بھی اکٹھے ہوتے تو میں سب کو قتل کر دیتا‘‘ عرنیین نے بھی ایک چرواہے کو قتل کیا تھا لیکن قصاص میں سب کو قتل کر دیا گیا تھا۔[5]
[1] سنن ترمذی، کتاب الدیات، باب الحکم فی الدماء: ۱۳۹۸۔ البانی نے اسے صحیح کہا ہے، الروض النفیر: ۹۲۵۔ تفصیل کے لیے تفسیر ابن کثیر: ۱/ ۸۰۰۔ ملاحظہ کیجئے۔
[2] دیکھئے، تفسیر ابن کثیر: ۱/ ۸۰۲۔
[3] احمد: ۱/ ۱۱۹۔ ابوداود، کتاب الدیات، باب ایقاد المسلم بالکافر: ۴۵۳۰۔ صحیح ہے۔ وارواء الغلیل: ۷/ ۲۶۶۔ بحوالہ فقہ الحدیث: ۲/ ۶۶۷۔
[4] موطا: ۴/ ۲۰۱۔
[5] بخاری، کتاب الدیات، باب اذا اصاب قوم من رجل ہل یعاقب او یقتص منہم کلہم: ۶۸۹۶۔ بحوالہ فقہ الحدیث: ۲۶۰/ ۶۶۳۔