کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 62
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’عادت اس بات سے مانع ہے کہ کوئی قوم کسی بھی فن مثلاً طب یا حساب کی کتاب پڑھے اور اس کی وضاحت طلب نہ کرے، لہٰذا کلام اللہ کے ساتھ یہ وطیرہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے جو کہ ان کی نجات، سعادت اور دین ودنیا کو سنوارنے کا باعث ہے۔ اہل علم پر واجب ہے کہ وہ لوگوں کے لیے لکھ کر یا روبرو تفسیر بیان کریں ۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَ لَا تَکْتُمُوْنَہٗ﴾ (اٰل عمرٰن: ۱۸۷) ’’اور جب اللہ نے ان لوگوں سے پختہ عہد لیا جنھیں کتاب دی گئی کہ تم ہر صورت اسے لوگوں کے لیے صاف صاف بیان کرو گے اور اسے نہیں چھپاؤ گے۔‘‘ کتاب کو واضح کرنا اس میں الفاظ ومعانی دونوں کی وضاحت آجاتی ہے اور اسی کو تفسیر کہا جاتا ہے جسے واضح کرنے کا اللہ عزوجل نے اہل علم سے وعدہ لیا ہے۔‘‘[1] سلف صالحین کا اسلوب تفسیر: سلف صالحین نے تفسیر کرتے ہوئے مندرجہ ذیل اسلوب کو مد نظر رکھا ہے: ۱۔ قرآن کی تفسیر قرآن کے ذریعے کی جائے۔ ۲۔ قرآن کی تفسیر کے لیے سنت کی طرف رجوع کیا جائے کیونکہ کلام اللہ کی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی نہیں جان سکتا مثلاً قرآن میں ہے: ﴿وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ ﴾ (الانفال: ۶۰) ’’اور ان (کافروں ) کے لیے جتنی قوت ہو سکے تیار کرو۔‘‘ قوت کی تفسیر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’اس سے مراد نشانہ بازی ہے۔‘‘[2] ۳۔ اگر قرآن وحدیث آیت کی تفسیر کے متعلق خاموش ہوں تو قول صحابی سے تفسیر کی جائے۔ ۴۔ پھر قول تابعی سے۔ ۵۔ اگر کچھ بھی میسر نہ ہو تو عبارت کے مطابق لغوی یا شرعی معنی اختیار کر لیا جائے۔ اس ’’تفسیر النساء‘‘ میں ہمارا منہج: ائمہ سلف نے تفسیر قرآن کا کوئی پہلو ایسا نہیں چھوڑا جس میں کوئی تشنگی باقی رہ گئی ہو، ہمارے ہمہ قسم کے مسائل کو انہوں نے واضح فرما دیا۔ جدید دور کے جدید فتنوں اور فقہی مسائل پر سیر حاصل بحث والی جدید
[1] مقدمۃ تفسیر القراٰن للعثیمین۔ [2] مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الرمی و الحث علیہ…، حدیث: ۱۹۱۷۔ مسند احمد: ۴/۱۵۷، حدیث: ۱۷۴۴۲۔