کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 618
مرض بڑھنے کا خدشہ ہو۔[1] سوال : اگر کسی کو ٹھنڈے پانی سے ڈر لگتا ہو تو کیا تیمم کر لینا جائز ہے یا نہیں ؟ جواب : ایسے آدمی کو تیمم کر لینا جائز نہیں ہے بلکہ اس پر واجب ہے کہ برداشت سے کام لے، صبر کرے اور وضو کے لیے گرم پانی استعمال کرے۔ ہاں اگر اسے اندیشہ ہو کہ ٹھنڈے پانی کے استعمال سے کوئی تکلیف ہو جائے گی (یا بیماری بڑھ جانے کا اندیشہ ہو) اور پانی گرم کرنے کا اس کے پاس کوئی انتظام نہ ہو تو تیمم کرلینے میں کوئی حرج نہیں اور جب اس تیمم سے نماز پڑھ لی ہو تو پھر اس کے اعادے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس نے ارشاد الٰہی کے مطابق نماز پڑھی ہے اور ہر وہ شخص جو حسب الحکم عبادت سے فارغ ہو چکا ہو تو اس پر اس کا اعادہ نہیں آتا۔ ٹھنڈے پانی سے محض اذیت محسوس کرنا عام حالات میں ناقابل قبول عذر ہے اور بالخصوص ایسے ملکوں میں جہاں موسم بالعموم سرد ہوتا ہے۔ وہاں پانی ہوتا ہی سرد ہے اور سرد پانی سے کچھ نہ کچھ اذیت تو ہوتی ہے… الخ[2] سوال : آدمی کو جب پانی میسر نہ ہو تو کیا اس کے لیے افضل ہے کہ پانی مل جانے کی امید میں نماز کو موخر کر دے یا تیمم کر کے اول وقت میں نماز پڑھ لے؟ جواب : (۱) دو صورتوں میں نماز کو آخر وقت تک مؤخر کرنا راجح ہے۔ الف:جب اسے معلوم ہو کہ پانی مل جائے گا تو افضل یہ ہے کہ نماز موخر کر دے۔ ب:یا اس کے نزدیک غالب گمان ہو کہ پانی مل جائے گا تو نماز مؤخر کر دے (۲) تین صورتوں میں نماز کو اول وقت میں پڑھ لینا راجح ہے۔ الف: جب آدمی کو معلوم ہو پانی نہیں ملے گا۔ ب: یا اسے غالب گمان ہو کہ پانی نہیں ملے گا۔ ج: یا وہ متردد ہو کہ نہ معلوم پانی ملے گا یا نہیں ۔ تو ان حالات میں نماز اول وقت میں پڑھ لینا راجح ہے۔[3] سوال : مریض کو اگر مٹی نہ ملے تو کیا اسے دیوار پر ہاتھ مار کر تیمم کر لینا جائز ہے؟ اور ایسے ہی
[1] دیکھئے: تفسیر النساء: ۴۳۔ [2] دیکھئے احکام ومسائل خواتین: ص۱۷۶۔ [3] محمد بن صالح عثیمین، احکام ومسائل خواتین: ص ۱۷۷۔