کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 61
پڑھیں اور ہم نے اسے نازل کیا، (تھوڑا تھوڑا) نازل کرنا۔‘‘
چنانچہ علماء اسے دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں :
مکي:…قرآن کا وہ حصہ جو ہجرت سے قبل نازل ہوا، چاہے وہ مکہ میں نازل ہوا ہو یا اس کے اردگرد۔
مدني:…قرآن کا ہجرت کے بعد نازل ہونے والا حصہ، چاہے وہ مکہ میں اترا ہو یا مدینہ میں یا کہیں بھی۔
لفظ ’’تفسیر‘‘ کے معنی:
لغوی طور پر اس کا معنی ہے: پردہ ہٹا دینا۔
اصطلاح میں قرآن کا معنی ’بیان کرنے‘ کو کہتے ہیں ۔
تفسیر کا حکم:
ہمیں موضوع تفسیر کے نام پر ایسی عجیب و غریب روایات جو قرآن و حدیث سے موافق بھی نہیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو نہ صرف قرآن کا مذاق ہے بلکہ آیات قرآنی کے معانی کو تبدیل کرنے کا موجب بھی ہے۔ اس لیے صحیح استناد اور اصلی تفاسیر کے لیے ائمہ کرام کی تفاسیر پڑھی جائیں اور خود قرآن کریم کے معنی و مفہوم سیکھ کر اس کمی کو پورا کیا جائے۔ تفسیر سیکھنا واجب ہے کیونکہ فرمان تعالیٰ ہے:
﴿کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُوْلُوا الْاَلْبَابِo﴾ (صٓ:۲۹)
’’یہ ایک کتاب ہے، ہم نے اسے آپ کی طرف نازل کیا ہے، بہت بابرکت ہے، تاکہ وہ اس کی آیات میں غور وفکر کریں اور تاکہ عقلوں والے نصیحت حاصل کریں ۔‘‘
اس آیت میں اللہ عزوجل نزول قرآن کی حکمت بیان فرما رہے ہیں کہ لوگ اس کی آیات میں غور کریں اور نصیحت حاصل کریں ۔
دوسری آیت ہے:
﴿اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَاo﴾ (محمد: ۲۴)
’’تو کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے، یا کچھ دلوں پر ان کے قفل پڑے ہوئے ہیں ؟‘‘
اس آیت میں اللہ عزوجل غور نہ کرنے والوں کی مذمت کر رہے ہیں ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ جب تک دس آیات کو پڑھ کر ان کو اچھی طرح سیکھ کر ان پر عمل نہ کر لیتے آگے نہ چلتے تھے، ان کا کہنا تھا:
((فَتَعَلَّمْنَا الْقُرْاٰنَ وَالْعِلْمَ وَالْعَمَلَ جَمِیْعًا۔))
’’ہم نے قرآن، علم اور عمل سب کچھ اکٹھا سیکھا ہے۔‘‘