کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 608
ہے اور صلہ رحمی بھی ہے۔[1] صلہ رحمی بارے مزید جاننے کے لیے (النساء: ۱) کی تفسیر ملاحظہ کیجئے: پڑوسی کے حقوق سوال : پڑوسی کے حقوق بارے اسلام کی تعلیمات کیا ہیں ؟ جواب : پڑوسی کے حقوق بارے درج ذیل احادیث ملاحظہ کیجئے۔ ۱۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو وہ اپنے ہمسایہ کو تکلیف نہ پہنچائے۔[2] ۲۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ الفاظ دہرائے: ’’اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں ۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: کون اے اللہ کے رسول!؟ فرمایا: جس کی ایذا دہی سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو۔[3] ۳۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی ایذاء دہی سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔[4] ۴۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل مجھے ہمسایہ سے حسن سلوک کے بارے اتنی وصیت کرتے رہے کہ میں نے سمجھا کہ وہ اسے وارث بھی بنا دیں گے۔[5] ۵۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ابو ذر! جب تم سالن پکاؤ تو اس کا شوربہ زیادہ کر لیا کرو اور اپنے پڑوسیوں کا بھی خیال رکھو۔[6] ۶۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمسایہ اپنے قرب کی وجہ سے (فروختنی جائیداد کا) زیادہ حقدار ہے۔[7] ۷۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے مسلم عورتو! کوئی ہمسائی اپنی ہمسائی کے تحفے کو حقیر نہ سمجھے خواہ وہ تحفہ بکری کا ایک کھر ہی کیوں نہ ہو۔[8] آیت( النساء: ۳۶) میں تین قسم کے ہمسایوں کا ذکر آیا ہے ایک وہ جو ہمسائے بھی ہوں اور رشتہ دار
[1] سنن ترمذی، کتاب الزکاۃ، باب ماجاء فی الصدقۃ علی ذی القرابۃ: ۶۵۸۔ النسائی: ۲۵۸۳۔ وصححہ الالبانی۔ المشکاۃ: ۱۹۳۹۔ والارواء: ۸۸۳۔ بحوالہ ابن کثیر: ۱/ ۷۲۹۔ [2] صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب الوصاۃ بالنساء۔ صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب الحث علی اکرام الجار۔ [3] صحیح بخاری، کتاب الادب، باب اثم من لا یامن جارہ بوائقہ۔ [4] صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان تحریم ایذاء الجار۔ [5] صحیح بخاری، کتاب الادب، باب الوصیۃ بالجار۔ صحیح مسلم، کتاب البروالصلۃ، باب الوصیۃ بالجار۔ [6] صحیح مسلم، کتاب البروالصلۃ، باب الوصیۃ بالجار۔ [7] صحیح بخاری، کتاب السلم، باب عرض الشفعۃ علی صاحبہا قبل البیع۔ [8] صحیح بخاری، کتاب الہبۃ والتحریض علیہا۔ صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ۔