کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 58
حَتَّی تَضَعَ یَدَہَا فِی یَدِ زَوْجِہَا وتَقُولُ لَا أَذُوقُ غَمَضًا حَتَّی تَرضَی۔))[1]
’’تمہاری وہ عورتیں جو محنت کرنے والیاں ، زیادہ بچے جننے والیاں ، خاوند کی خدمت کرنے والیاں کہ جب خاوند ناراض ہو جائے تو اپنا ہاتھ خاوند کے ہاتھ میں دے کر کہتی ہیں میں آپ کے راضی ہونے تک نہیں سوؤں گی۔‘‘
قرآن وسنت کے علاوہ اگر آپ فطرت پر غور کریں تو وہ بھی یہ گواہی دیتی نظر آئے گی کہ عورت میدان کارزار کے لیے نہیں بلکہ گھر کو گل وگلزار بنانے کے لیے تخلیق کی گئی ہے البتہ اگر کوئی عورت مرد کی عقل عیار کاشکار ہو کر اپنے مقصد حیات سے برگشتہ ہو جائے تو الگ بات ہے۔
جس طرح ایک مرد کے بس سے یہ باہر ہے کہ عورت کے طبعی فرائض میں حصہ لے، اسی طرح عورت کے بس سے بھی باہر ہے کہ مردانہ علمی وتمدنی مشاغل میں شرکت کر سکے۔ نسل انسانی میں اضافے اور اس کی حفاظت کے لیے قدرت نے مسلسل چار دور قرار دئیے ہیں : حمل، وضع، رضاعت اور تربیت، ان میں ہر ایک دور کا زمانہ عورت کی زندگی کا نہایت اہم اور دشوار زمانہ ہوتا ہے، ان میں بہت سی احتیاطوں اور علاجوں کی ضرورت ہوتی ہے، علم طب کا بہت بڑا حصہ ان چار ادوار کے لوازم احتیاط اور قوانین صحت کے متعلق مختلف مباحث سے تعلق رکھتا ہے۔
قدیم وجدید زمانے کے سیکڑوں علماء اور تجربہ کار ڈاکٹرحضرات نے اپنی عمرصرف کر کے اس مسئلہ کی مشکلات اور مصائب دور کرنے کے لیے کتب تصانیف کی ہیں جن کے مطالعے سے ان چار ادوار کی اہمیت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ان زمانوں میں برتی جانے والی ذرا سی بے احتیاطی ایک انسان کو ہمیشہ کے لیے ناکارہ بنا سکتی ہے جبکہ ان کی حفاظت اس کی زندگی سنوار سکتی ہے۔
اتنا گراں بار بوجھ اٹھانے والی عورت کے لیے پھر یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ معاشرتی امور میں حصہ لے سکے؟ وہ اپنے طبعی فرائض بھی پورے کرے اور ایک سیاست دان کی حیثیت سے عوام کی قیادت بھی کرے، ایک وکیل کی حیثیت سے کتابوں میں مغز ماری بھی کرے اور سیل گرل بن کر گاہکوں کے دل لبھاتی پھرے؟ اور خصوصاً آج کے دور میں اسے جو بطور اشتہار شوپیس بنا دیا گیا ہے اس کے تقاضوں کو وہی عورت پورا کر سکتی ہے جو اپنے طبعی فرائض سے منہ موڑ چکی ہو، مرد کی عقل عیار کا شکار ہو چکی ہو۔
ہاں ، اگر عورت اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض کی بجا آوری کے بعد معاشرے کی ترقی یا فروغ اسلام کے لیے کچھ کر سکتی ہے تو اسلام اس کے اس کردار پر قدغن نہیں لگاتا، تاریخ اسلام میں آپ کو
[1] سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ: ۲۸۷۔