کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 578
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿ قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّـهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴾ ’’کہہ دیجیے وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ ہی بے نیاز ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔ اور نہ کبھی کوئی ایک اس کے برابر کا ہے۔‘‘ تفسیر:… ﴿قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ﴾ اللہ کے ایک ہونے کے تین معانی ہو سکتے ہیں تینوں یہاں درست ہیں پہلا یہ کہ وہ ایک ذات ہے دو یا تین یا زیادہ نہیں ، اس کی ذات میں تعدد نہیں ۔ دوسرا یہ کہ وہ معبود برحق ہونے میں اکیلا ہے اس کا کوئی ثانی یا شریک نہیں ۔ تیسرا یہ کہ وہ ایک ہے اس کی تقسیم نہیں ہو سکتی نہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتا ہے۔ اس ایک ہی آیت سے اللہ کے کسی قسم کے شریک بنانے والوں کی تردید ہوگئی خواہ وہ مجوس (آتش پرست) ہوں جو دو خالق مانتے ہیں ایک خیر کا خالق (یزداں ) دوسرا شر کا خالق (اہرمن) خواہ تثلیث (تین خداؤں ) کو ماننے والے ہوں ، خواہ ہندو ہوں جو کروڑوں دیوتاؤں کو خدائی میں حصے دار مانتے ہیں اور خواہ وہ وحدت الوجود کے قائل ہوں جو ہر چیز کو ہی خدا مانتے ہیں کیونکہ اگر ہر چیز ہی خدا ہے یا ہر چیز میں ہی خدا ہے تو اللہ ایک تو نہ رہا جبکہ اللہ تعالیٰ کا تعارف ہی یہ ہے کہ وہ ایک ہے اس میں تعدد وکثرت نہیں ۔ اس طرح ان لوگوں کے عقیدے کی بھی تردید ہوگئی جو اللہ کے علاوہ کسی کو عالم الغیب یا اختیارات کا مالک سمجھ کر مدد کے لیے پکارتے ہیں اور انہیں خدائی اختیارات میں اللہ کا شریک بناتے ہیں ۔ اور ان لوگوں کو بھی تردید ہوگئی جو اللہ کی ذات سے ٹکڑوں کے جدا ہونے کے قائل ہیں کوئی کہتا ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں کوئی کہتا ہے عزیر علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور میں سے پیدا ہوئے ہیں کیونکہ ان تمام صورتوں میں کوئی نہ کوئی ہستی اللہ کی شریک ٹھہرتا ہے وہ ایک نہیں رہتا۔ (اللہ الصمد) الصمّد کی تفسیر میں سلف کے کئی اقوال ہیں ان کا خلاصہ تین اقوال میں آجاتا ہے۔ (۱)صمد و ہ سردار ہے جس کی طرف لوگ قصد کر کے جائیں جس سے بڑا کوئی سردار نہ ہو۔ اکثر سلف نے یہ ہی معنی کیا ہے۔ (۲) کھاتا پیتا نہ ہو۔ (۳) جس کا پیٹ نہ ہو جو کھوکھلا نہ ہو جس سے کچھ نکلتا نہ ہو۔ اللہ پر تینوں معنی صادق آتے ہیں ۔ عربی زبان کا قاعدہ ہے جب خبر پر الف لام آجائے تو معنی میں حصر پیدا ہو جاتا ہے اگر اللہ صمد ہوتا تو معنی یہ تھا اللہ صمد ہے۔ اب (اللّٰہُ الصَّمَدُ) فرمایا تو معنی ہوا اللہ ہی صمد ہے کوئی اور صمد نہیں ۔