کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 529
اول یہ کہ جو عورت مسلمان ہو جائے وہ اپنے کافر شوہر کے لیے حلال نہیں رہتی اور نہ کافر شوہر اس کے لیے حلال رہتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جو منکوحہ عورت مسلمان ہو کر دار الکفر سے دار الاسلام میں ہجرت کر کے آئے اس کا نکاح خود بخود ٹوٹ جاتا ہے اور جو مسلمان بھی چاہے اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کر سکتا ہے۔ تیسرے یہ کہ جو مرد مسلمان ہو جائے اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اس کی بیوی اگر کافر ہے تو اسے اپنے نکاح میں روکے رکھے۔ چوتھے یہ کہ اگر دار الکفر اور دار الاسلام کے درمیان صلح کے تعلقات موجود ہوں تو اسلامی حکومت کو دار الکفر کی حکومت سے یہ معاملہ طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کفار کی جو منکوحہ عورتیں مسلمان ہو کر دار الاسلام میں ہجرت کر کے آئی ہوں ان کے مہر مسلمانوں کی طرف سے واپس دے دئیے جائیں اور مسلمانوں کی منکوحہ کافر عورتیں جو دار الکفر میں رہ گئی ہوں ان کے مہر کفار کی طرف سے واپس مل جائیں ۔[1] اس کے بعد کی آیت (وَ اِنْ فَاتَکُمْ … الخ) کا مطلب حضرت قتادہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ جن کفار سے تمہارا عہد و پیمان صلح و صفائی نہیں اگر کوئی عورت کسی مسلمان کے گھر سے جا کر ان میں جا ملے تو ظاہر ہے کہ وہ اس کے خاوند کا کیا خرچ نہیں دیں گے تو اس کے بدلے تمہیں بھی اجازت دی جاتی ہے کہ ان میں سے اگر کوئی عورت مسلمان ہو کر تم میں چلی آئے تو تم بھی اس کے خاوند کو کچھ نہ دو جب تک وہ نہ دیں ۔[2] پس (فَعَاقَبْتُمْ) کے معنی یہ ہوئے کہ پھر تمہیں قریش یا کسی اور جماعت کفار سے مال غنیمت ہاتھ لگے تو ان مردوں کو جن کی عورتیں کافروں میں چلی گئی ہیں ان کا کیا ہوا خرچ ادا کر دو یعنی مہر مثل۔ ان اقوال میں کوئی تضاد نہیں اور خلاف نہیں مطلب یہ ہے کہ پہلی صورت اگر ممکن ہو تو وہ سہی ورنہ مال غنیمت میں سے اسے حق دے دیا جائے دونوں باتوں میں اختیار ہے اور حکم میں وسعت ہے۔ حضرت امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس تطبیق کو پسند فرمایا ہے۔ فالحمد للہ۔[3] خواتین کا طریقہ بیعت صحیح بخاری میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے جو مسلمان عورتیں آنحضرت کے پاس ہجرت کر کے آتی تھیں ان کا امتحان اسی آیت سے ہوتا تھا۔ جو عورت ان تمام باتوں کا اقرار کر لیتی اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
[1] ایضا: ۵/۴۳۷-۴۳۸۔ [2] ابن کثیر: ۵/۴۲۰۔ [3] ایضا: ۵/۴۲۰۔