کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 528
کافروں کے درمیان سے آ جائیں یہ تب کی بات ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے روز قریش سے معاہدہ کیا تھا کہ آپ کے پاس جو بھی مسلمان ہو کر آئے گا آپ اسے واپس کر دیں گے تو جب عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو اللہ نے انکار کر دیا کہ انہیں کافروں کو واپس کیا جائے اور ان کے امتحان کا حکم دے دیا۔ سو فرمایا (فَامْتَحِنُوْہُنَّ) یعنی ان کا امتحان لے لیا کرو۔ نیز اس بات میں اختلاف ہے کہ ان کا امتحان کیسے ہوتا تھا؟ ایک قول ہے ان سے اللہ کی قسم لی جاتی تھی کہ خاوند سے نفرت کسی سرزمین سے دلچسپی یا تلاش دنیا کے لیے نہیں نکلیں ، بلکہ وہ اللہ، اس کے رسول سے محبت، دین کی رغبت کی وجہ سے نکلی ہیں ۔ جب وہ یوں قسم اٹھا لیتیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے شوہر کو حق مہر دے دیتے اور جو اس نے اس پر خرچ کیا ہوتا اسے واپس نہیں کرتے تھے۔
ایک قول یہ ہے کہ امتحان یوں ہوتا تھا کہ وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دے دیتیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان پر (یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اِذَا جَآئَ کَ الْمُؤْمِنَاتُ … الخ) پڑھ دیتے تھے۔[1]
اہل علم کا اختلاف ہے کہ کیا عورتیں بھی اس معاہدہ صلح میں داخل تھیں یا نہیں ؟[2]
اصل بات یہ ہے کہ معاہدہ صلح کی یہ شرط مسلمانوں کی طرف سے نہیں بلکہ کفار قریش کی جانب سے تھی اور ان کی جانب سے ان کے نمائندے سہیل بن عمرو نے جو الفاظ لکھوائے تھے وہ یہ تھے عَلٰی اَنْ لَّا یَاْتِیَکَ مِنَّا رَجُلٌ وَ اِنْ کَانَ عَلٰی دِیْنِکَ اِلَّا رَدَدْتَّہٗ اِلَیْنَا۔ ’’اور یہ تمہارے پاس ہم میں سے کوئی مرد بھی آئے اگرچہ وہ تمہارے دین پر ہی ہو تم اسے ہماری طرف واپس کرو گے۔ معاہدے کے یہ الفاظ بخاری (کتاب الشروط، باب الشروط فی الجہاد و المصالحۃ) میں قوی سند کے ساتھ نقل ہوئے ہیں ۔ ہو سکتا ہے سہیل نے رجل کا لفظ شخص کے معنی میں استعمال کیا ہو لیکن یہ اس کی ذہنی مراد ہو گی۔ معاہدے میں جو لفظ لکھا گیا تھا وہ رجل ہی تھا جو عربی زبان میں مرد کے لیے ہی بولا جاتا ہے اسی بنا پر جب ام کلثوم بنت عقبہ کی واپسی کا مطالبہ لے کر ان کے بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو (امام زہری کی روایت کے مطابق) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو واپس کرنے سے یہ کہہ کر انکار فرمایا کہ کَانَ الشَّرْطُ فِی الرِّجَالِ دُوْنَ النِّسَائِ۔ ’’شرط مردوں کے بارے میں تھی نہ کہ عورتوں کے بارے میں ۔[3]
ان آیات میں چار بڑے احکام بیان ہوئے ہیں جن کا تعلق اسلام کے عائلی قانون سے بھی ہے اور بین الاقوامی قانون سے بھی:
[1] فتح القدیر: ۶/۲۶۶۔
[2] ایضًا۔
[3] احکام القرآن لابن عربی۔