کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 527
بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢﴾ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ ﴾ تیرے پاس مومن عورتیں آئیں ، تجھ سے بیعت کرتی ہوں کہ وہ نہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ کوئی بہتان لائیں گی جو اپنے ہاتھوں اور اپنے پاؤں کے درمیان گھڑ رہی ہوں اور نہ کسی نیک کام میں تیری نافرمانی کریں گی تو ان سے بیعت لے لے اور ان کے لیے اللہ سے بخشش کی دعا کر۔ یقینا اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں کو دوست مت بناؤ جن پر اللہ غصے ہو گیا، جو آخرت سے اسی طرح ناامید ہو چکے ہیں جس طرح وہ کافر ناامید ہو چکے ہیں جو قبروں والے ہیں ۔ اس سورۃ کی آیت ۱۰ میں حکم دیا گیا ہے کہ جو عورتیں ہجرت کر کے آئیں اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کریں ان کا امتحان لیا جائے اسی مناسبت سے اس کا نام الممتحنہ رکھا گیا۔[1] زمانہ نزول وموضوع اس میں دو ایسے معاملات پر کلام فرمایا گیا ہے جن کا زمانہ تاریخی طور پر معلوم ہے، پہلا معاملہ سیّدنا حاطب بن ابی بلتعہ کا ہے جنہوں نے فتح مکہ سے کجھ مدت پہلے ایک خفیہ خط کے ذریعے سے قریش کے سرداروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارادے کی اطلاع بھیجی تھی کہ آپ ان پر حملہ کرنے والے ہیں اور دوسرا معاملہ ان مسلمان عورتوں کا ہے جو صلح حدیبیہ کے بعد مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آنے لگی تھی اور ان کے بارے یہ سوال پیدا ہوگیا تھا کہ شرائط صلح کی رو سے مسلمان مردوں کی طرح کیا ان عورتوں کو بھی کفار کے حوالے کر دیا جائے؟ ان دو معاملات کے ذکر سے یہ بات قطعی طور پر متعین ہو جاتی ہے کہ یہ سورۃ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان نازل ہوئی ہے۔[2]
[1] تفہیم القرآن: ۵/ ۴۲۰۔ [2] ایضًا۔