کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 523
شان نزول تفسیر:… مجادلہ یہ اس کا وہ تکرار ہے جو اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا تھا آپ جب اسے فرماتے کہ تو اس پر حرام ہو چکی ہے تو وہ کہتی: اللہ کی قسمیں اس نے تو طلاق کا نام بھی نہیں لیا، پھر بولتی میں اپنے فاقے اور اکیلے پن کی شکایت اللہ ہی سے کرتی ہوں میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اگر اس کے پاس بھیج دوں تو رُل جائیں گے اپنے پاس رکھوں تو بھوکوں مر جائیں گے اور بار بار اپنا سر آسمان کی جانب اٹھاتی جاتی ہے اور کہتی ہے اللہ تجھے ہی شکایت لگاتی ہوں ۔[1] ظہار کیا ہے؟ عرب میں بسا اوقات یہ صورت پیش آتی تھی کہ شوہر اور بیوی میں لڑائی ہوتی تو شوہر غصے میں آکر کہتا: (اَنْتِ عَلَیَّ کَظَہْرِ أُمِّی) اس کے لغوی معنی تو یہ ہے کہ ’’تو میرے اوپر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ‘‘ لیکن اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ تجھ سے مباشرت کرنا میرے لیے ایسے ہے جیسے میں اپنی ماں سے مباشرت کروں ۔ اس زمانے میں بھی بہت سے نادان لوگ بیوی سے لڑ کر اس کو مان بہن بیٹی سے تشبیہ دے دیتے جس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اب اسے بیوی نہیں بلکہ ان عورتوں کی طرح سمجھتا ہے جو اس کے لیے حرام ہیں اسی فعل کا نام ظہار ہے۔[2] اہل علم نے اس بارے اختلاف کیا ہے کہ جب آدمی اپنی عورت سے بولے تو مجھ پر میری ماں کے سر، ہاتھ یا پاؤں یا اس جیسی کسی اور شے کی طرح ہے تو یہ کیا ظہار ہوگا یا نہیں ، نیز اسی طرح جب یہ کہے کہ تو مجھ پر میری ماں جیسی اور ’’ظہر‘‘ پشت کا ذکر نہ کرے؟ تو ظاہر یہی ہے کہ اگر اس کا ظہار کا ارادہ ہے تو یہ ظہار ہوگا جبکہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ جب وہ اسے اپنی ماں کے ایسے عضو کے ساتھ تشبیہ دے جس کا دیکھنا حلال ہے تو پھر ظہار نہیں ہوگا۔[3] ظہار سے نہ طلاق واقع ہوتی ہے نہ بیوی ماں بنتی ہے بلکہ یہ ایک کبیرہ گناہ ہے۔ ظہار کا کفارہ (۱) ایک غلام آزاد کرنا۔ (۲) مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنا۔ (۳)ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔ کفارہ کب ادا کیا جائے ایک شخص نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا پھر کفارہ ادا کرنے سے
[1] فتح القدیر: ۵/ ۲۲۵۔ [2] تفہیم القرآن: ۵/ ۳۴۰۔ [3] فتح القدیر: ۵/ ۲۲۶۔