کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 483
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ۖ فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا ﴾ ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو، پھر انھیں طلاق دے دو، اس سے پہلے کہ انھیں ہاتھ لگاؤ تو تمھارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں ، جسے تم شمار کرو، سو انھیں سامان دو اور انھیں چھوڑ دو، اچھے طریقے سے چھوڑنا۔‘‘ نکاح کی حقیقت تفسیر:… اس آیت میں بہت سے احکام ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف عقد پر بھی نکاح کا اطلاق ہوتا ہے اس کے ثبو ت میں اس سے زیادہ صراحت والی آیت اور کوئی نہیں اس میں اختلاف ہے کہ لفظ نکاح حقیقت میں صرف ایجاب وقبول کے لیے ہے یا صرف جماع کے لیے ہے یا ان دونوں کے مجموعے کے لیے؟ قرآن کریم میں اس کا اطلاق عقد وطی دونوں پر ہوا ہے لیکن اس آیت میں صرف عقد پر ہی اطلاق ہے۔[1] راغب اصفہانی نے پورے زور کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ: ’’اَصْلُ النِّکَاحِ اَلْعَقَدُ ثُمَّ اُسْتُعیْرَ لِلْجَمَاعِ وَمَحَالٌ اَنْ یَکُوْنَ فِی الْاَصْلِ لِلْجَمَاعِ ثُمَّ اُسْتُعِیْرَ لِلْعَقد۔‘‘ ’’لفظ نکاح کے اصل معنی عقد کے ہیں پھر یہ لفظ استعارتاً جماع کے لیے استعمال کیا گیا ہے یہ بات محال ہے کہ اس کے اصل معنی جماع کے ہوں اور استعارے کے طور پر اسے عقد کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔‘‘[2] اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دخول سے پہلے بھی خاوند بیوی کو طلاق دے سکتا ہے۔ مومنات کا ذکر یہاں بوجہ غلبہ کے ہے ورنہ حکم کتابیہ عورت کا بھی یہی ہے سلف کی ایک بڑی جماعت نے اس آیت سے استدلال کر کے کہا ہے کہ طلاق اسی وقت واقع ہوتی ہے جب اس سے پہلے نکاح ہوگیا ہو اس آیت میں نکاح کے بعد طلاق کو فرمایا، پس معلوم ہوا کہ طلاق سے پہلے نکاح ہوگیا ہو اس آیت میں نکاح کے بعد طلاق کو فرمایا پس معلوم ہوا کہ نکاح سے پہلے نہ طلاق صحیح ہے نہ وہ واقع ہوتی ہے امام شافعی وامام احمد رحمہما اللہ اور بہت بڑی جماعت سلف وخلف کا یہی مذہب ہے۔
[1] تفسیر ابن کثیر: ۴/ ۳۱۵۔ [2] تفہیم القرآن: ۴/ ۱۰۹۔