کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 481
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جب تلاوت قرآن کرتے ہوئے اس آیت ﴿وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ﴾ پر پہنچتی تھیں تو بے اختیار روپڑتی تھیں ، یہاں تک کہ ان کا دوپٹہ بھیگ جاتا تھا کیونکہ اس پر انہیں اپنی وہ غلطی یاد آجاتی تھی جو ان سے جنگ جمل میں ہوئی تھی۔[1] تبرج کے معنی عربی زبان میں نمایاں ہونے، ابھرنے اور کھل کر سامنے آنے کے ہیں ہر ظاہر اور مرتفع چیز کے لیے عرب لفظ برج استعمال کرتے ہیں ’’برج‘‘ کو برج اس کے ظہور اور ارتفاع کی وجہ سے ہی کہا جاتا ہے، بادبانی کشتی کے لیے بارجہ کا لفظ اسی لیے بولا جاتا ہے کہ اس کے بادبان دور سے نمایاں ہوتے ہیں ۔ عورت کے لیے جب لفظ تبرج استعمال کیا جائے تو اس کے تین مطلب ہوں گے ایک یہ کہ وہ اپنے چہرے اور جسم کا حسن لوگوں کو دکھائے۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنے لباس اور زیور کی شان دوسروں کے سامنے نمایاں کرے۔ تیسرے یہ کہ وہ اپنی چال ڈھال اور چٹک مٹک سے اپنے آپ کو نمایاں کرے یہی تشریح اس لفظ کی اکابر اہل لغت اور اکابر مفسرین نے کی ہے مجاہد قتادہ اور ابن ابی نجیح کہتے ہیں : التبرج المشی بتبختر و تکسر و تفنج، ’’تبرج کے معنی ہیں ناز و ادا کے ساتھ لچک کھاتے اور اٹھلاتے ہوئے چلنا۔ مقاتل کہتے ہیں : ابداء قلائدہا وقرطہا وعنقہا، عورت کا اپنے ہار اور بندے اور اپنا گلا نمایاں کرنا۔ المبرد کا قول ہے: اَنْ تُبدیَ مِن مَحَاسنہا مَا یجِبُ عَلَیہا سَتْرہٗ، یہ کہ عورت اپنے وہ محاسن ظاہر کر دے جن کو اسے چھپانا چاہیے۔ ابوعبیدہ کی تفسیر ہے: اَنْ تُخْرِج مِن مَحَاسِنِہا تَستَرْعِی بِہِ شَہوۃَ الرِّجَال، ’’یہ کہ عورت اپنے جسم و لباس کے حسن کو نمایاں کرے جس سے مردوں کوا س کی طرف رغبت ہو۔ جاہلیت اولی سے مراد وہ برائیاں ہیں جن میں اسلام سے پہلے عرب لوگ اور دنیا بھر کے لوگ مبتلا تھے۔[2] اہل بیت سے مراد کون لوگ ہیں ؟ اہل بیت اور اہل خانہ یا گھر والے یہ سب مہم معنی الفاظ ہیں اور اس سے مراد کسی مرد کی بیوی یا بیویاں تو ضرور شامل ہوتی ہیں جیسے یہاں سیاق و سباق میں ازواج النبی کو ہی خطاب کیا جا رہا ہے اور اگر اولاد ہو تو وہ بھی اہل بیت میں شامل سمجھی جاتی ہے مگر بدقسمتی سے مسلمانوں کے ایک فرقہ نے اہل بیت سے ازواج النبی کو تو خارج کر دیا اور اس کے بجائے اہل بیت سے مراد سیّدہ فاطمہ، سیّدنا علی، سیّدنا حسن، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہم کو
[1] تفہیم القرآن: ۴/ ۹۱۔ [2] تفہیم القرآن: ۴/ ۹۱۔