کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 477
اس میں پہلے یہ خاص طور پر وضاحت کر دی گئی کہ تمہارا معاملہ عام عورتوں کا سا نہیں ہے بلکہ تمہارے کردار کے نتائج بڑے دُور رَس ہیں ۔ لہٰذا تمہیں پوری طرح ان احکام پر عمل کرنا ہوگا تمہارے ہر عمل کو لوگ حجت سمجھیں گے اور بطور حجت ہی پیش کریں گے۔[1] آواز پر پابندی یعنی ضرورت پیش آنے پر کسی مرد سے بات کرنے میں مضائقہ نہیں ہے لیکن ایسے مواقع پر عورت کا لہجہ اور انداز گفتگو ایسا ہونا چاہیے جس سے بات کرنے والے مرد کے دل میں کبھی یہ خیال تک نہ گزر سکے کہ اس عورت سے کوئی اور توقع بھی قائم کی جا سکتی ہے۔[2] جنگ احزاب سے پہلے تک عرب معاشرے کا یہ حال تھا کہ مسلمان عورتیں بھی اپنی پوری زینت میک اپ کے ساتھ بے حجاب پھرتی تھیں مسلم گھرانوں میں بھی غیر مردوں کے داخلہ پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ ازواج مطہرات بھی اسی طرح گھر سے باہر آجایا کرتی تھیں ۔ جیسے دوسری عورتیں اس بے حجابانہ معاشرے کی اصلاح کے لیے سب سے پہلے غیر مرد اور غیر عورت کو باہمی گفتگو اور آواز پر پابندی لگائی گئی اس کے حکم میں مخاطب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو بالخصوص اس لیے کیا گیا کہ ان سے بھی لوگوں کو مسئلے مسائل پوچھنے کی ضرورت پیش آتی رہتی تھی چنانچہ انہیں حکم دیا گیا کہ ان کی آواز شیریں اور لوچدار ہونے کی بجائے روکھی اور معقول حد تک بلند ہونی چاہیے دبی زبان میں ہرگز بات نہ کی جائے جو نرم گوشہ لیے ہوئے ہو۔ لوچدار اور شیریں آواز بذات خود دل کا ایک مرض ہے پھر اگر مخاطب کے دل میں پہلے سے ہی اس قسم کا روگ موجود ہو تو وہ صرف اسی لذیذ گفتگو سے کئی غلط قسم کے خیالات اور تصورات دل میں جمانا شروع کر دے گا اگرچہ ربط مضمون کے لحاظ سے اس کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان ہوا تاہم یہ حکم عام ہے اور عورت کی آواز پر اصل پابندی یہ ہے کہ غیر مرد اس کی آواز نہ سننے پائیں یعنی اس کی آواز میں نرمی لوچ، بانکپن اور شیرینی نہ ہونی چاہیے یہی وجہ ہے کہ عورت اذان نہیں کہہ سکتی یا نماز باجماعت میں امام غلطی کر جائے تو وہ نہ سبحان اللہ کہہ سکتی ہے اور نہ لقمہ دے سکتی ہے بلکہ اس کے لیے تصفیق کا حکم ہے۔ ذرا سوچئے جو دین عورت کو غیر مرد سے بات کرتے ہوئے بھی لوچدار انداز گفتگو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اسے مردوں کے سامنے بلا ضرورت آواز نکالنے سے بھی روکتا ہے کیا وہ کبھی اس کو پسند کر سکتا ہے کہ عورت اسٹیج پر آکر گائے، ناچے تھرکے، بھاؤ بتائے اور ناز ونخرے دکھائے؟ کیا وہ اس کی اجازت دے سکتا ہے کہ
[1] تیسیر القرآن: ۳/ ۵۷۹۔ [2] تفہیم القرآن: ۴/ ۸۹۔