کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 472
مغنیات کی بیع وشراء کا ذکر فرمایا اور ان کی فیس کو قیمت کے لفظ سے تعبیر فرمایا اور گانے والی خاتون کے لیے قینۃ کا لفظ استعمال کیا جو عربی زبان میں لونڈی کے لیے بولا جاتا ہے۔ [1]
امام طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ تمام شہروں کے سبھی علماء گانے کی کراہت اور اس کے ممنوع ہونے پر متفق ہیں البتہ ابراہیم بن سعد اور عبداللہ العنبری اتفاق نہیں کرتے۔ قاضی ابوبکر ابن العربی کا کہنا ہے: آدمی کے لیے اپنی لونڈی کا گانا سننا جائز ہے۔ جب اس (لونڈی) سے اس پر کوئی شے حرام نہ ہو نہ اس کے ظاہر سے نہ باطن سے اسے اس کی آواز سے لطف لینے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟[2]
نضر بن حارث کا اسلام سے روکنے میں کردار
اس آیت کا شان نزول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو غیر مؤثر بنانے کے لیے جو لوگ ادھار کھائے بیٹھے تھے ان میں ایک نضر بن حارث بھی تھا اس کا طریقہ کار ابولہب سے بالکل جداگانہ تھا ایک دفعہ سرداران قریش سے کہنے لگا۔ قریشیو! محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے سب سے زیادہ پسندیدہ آدمی تھے سب سے زیادہ سچے اور سب سے زیادہ امین تھے اب اگر وہ اللہ کا پیغام لے کر آئے ہیں تو تم کبھی انہیں شاعر کہتے ہو کبھی کاہن، کبھی پاگل، کبھی جادوگر حالانکہ وہ نہ شاعر ہیں نہ کاہن نہ پاگل اور نہ جادوگر ہیں کیونکہ ہم ایسے لوگوں کو خوب جانتے ہیں اے اہل قریش سوچو یہ تم پر کیسی آفت آپڑی ہے۔
پھر اس افتاد کا حل نضر نے یہ سوچا کہ وہ خود حیرہ گیا وہاں سے بادشاہوں کے حالات اور رستم واسفند یار کے قصے سیکھے آپ جہاں کہیں بھی جا کر اپنا پیغام سناتے ابولہب کی طرح نضر بن حارث بھی وہاں پہنچ کر یہ قصے سناتا پھر لوگوں سے پوچھتا آخر کس بنا پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام مجھ سے بہتر ہے علاوہ ازیں اس نے چند لونڈیاں بھی خرید رکھی تھیں جب کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مائل ہونے لگتا تو وہ کسی لونڈی کو اس پر مسلط کر دیتا کہ وہ لونڈی اسے کھلائے پلائے، گانا سنائے اور اس کی فکر کا رخ موڑ دے اسی سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔ [3]
آیات اللہ سے تکبر
وہ اللہ کی آیات سننے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتا۔ اگر کانوں میں آواز پڑ جائے تو سنی اَن سنی کر دیتا ہے جیسے وہ ثقل سماعت کی وجہ سے بات سن ہی نہ پایا ہو اور یہ سب وہ تکبر و نخوت کی بنا پر کرتا ہے لہٰذا اسے اس تکبر کی سزا درد ناک عذاب کی صورت میں ملے گی۔[4]
[1] تفہیم القرآن: ۴/ ۱۰۔
[2] فتح القدیر: ۴/ ۲۹۰۔
[3] ابن ہشام: ۱/ ۲۷۱۔
[4] تیسیر القرآن: ۳/۵۲۸۔