کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 471
كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِي أُذُنَيْهِ وَقْرًا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴾ کرتے ہوئے منہ پھیر لیتا ہے، گویا اس نے وہ سنی ہی نہیں ، گویا اس کے دونوں کانوں میں بوجھ ہے، سو اسے دردناک عذاب کی خوش خبری دے دے۔ ‘‘ لھو الحدیث سے کیا مراد ہے؟ تفسیر:… امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس باب میں جو سب سے بہتر بات کہی گئی ہے وہ ہے لہو الحدیث کی تفسیر گانے کے ساتھ کرنا کہتے ہیں یہی صحابہ و تابعین کا قول ہے۔[1] سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قسم کھا کر فرماتے ہیں مراد اس سے گانا ہے۔[2] یعنی ایسی بات جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کر کے ہر دوسری چیز سے غافل کر دے لغت کے اعتبار سے تو ان الفاظ میں کوئی ذم کا پہلو نہیں ہے لیکن استعمال میں ان کا اطلاق بری اور فضول اور بیہودہ باتوں پر ہی ہوتا ہے مثلاً گپ خرافات ہنسی مذاق داستانیں افسانے، ناول، گانا بجانا اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ۔[3] گانے بجانے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ گانے والیوں کی خرید و فروخت حلال نہیں اور ان کی قیمت کھانا حرام ہے۔‘‘ [4] سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قسم کھا کر کہا کرتے تھے کہ قرآن میں لہو الحدیث کا لفظ گانے اور موسیقی کے لیے آیا ہے نیز آپ فرمایا کرتے گانا بجانا دل میں یوں نفاق پیدا کرتا ہے جیسے پانی سے گھاس اور سبزہ اگ آتا ہے۔[5] سیّدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا اور میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا کہ باجوں گاجوں ، سازو مضراب، بتوں ، صلیبوں اور امر جاہلیت کو ختم کروں ۔‘‘[6] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’گانا بجانا کرنے والی عورتوں کو نہ بیچو، نہ خریدو اور نہ انہیں یہ کام سکھاؤ اور ان کی اجرت حرام ہے۔‘‘[7] اس سلسلے میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ اس زمانے میں گانے بجانے کی ثقافت تمام تر بلکہ کلیتاً لونڈیوں کی بدولت زندہ تھی، آزاد عورتیں اس وقت تک آرٹسٹ نہ بنی تھیں اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
[1] فتح القدیر: ۴/ ۲۹۰۔ [2] ابن کثیر: ۴/ ۲۲۶۔ [3] تفہیم القرآن: ۴/ ۸۔ [4] شواہد کے ساتھ صحیح ہے، ابن ماجۃ، کتاب التجارات، باب مالا یحل بیعہ: ۲۱۶۸۔ ابن کثیر: ۴/ ۲۲۶۔ [5] فتاوٰی ابن باز (اردو): ۱/ ۲۱۳۔ [6] احمد، مشکوٰۃ۔ [7] ترمذی، ابواب البیوع، باب کراہیۃ المغنیات۔ تیسیر القرآن: ۳/ ۵۲۷۔