کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 468
سورۃ الروم پہلی ہی آیت کے لفظ ﴿غُلِبَتِ الرُّوْمُ﴾ سے ماخوذ ہے۔[1] زمانہ نزول وپس منظر جس زمانہ میں آپ کو نبوت عطا ہوئی۔ (۶۱۰ء میں ) اس وقت عرب کے اطراف میں دو بڑی سپر پاورز تھیں ایک روم کی عیسائی حکومت جو دو باتوں میں مسلمانوں سے قریب تھی ایک یہ کہ دونوں اہل کتاب تھے دوسرے دونوں آخرت پر ایمان رکھتے تھے لہٰذا مسلمانوں کی ہمدردیاں انہیں کے ساتھ تھیں مسلمانوں کی عیسائی حکومت سے ہمدردی کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ اسی زمانہ میں مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اور قریشیوں نے مسلمانوں کو واپس لانے کی کوشش کے باوجود حبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور قریش کی سفارت کو بری طرح ناکام ہو کر واپس ہونا پڑا۔ اور دوسری طرف ایران کی حکومت جو ر و وجوہ سے مشرکین مکہ کے قریب تھی ایک یہ کہ دونوں مشرک تھے ایرانی دو خداؤں کے قائل اور آتش پرست تھے مشرکین بت پرست اور دوسرے یہ کہ دونوں آخرت کے منکر تھے انہی وجوہ کی بنا پر مشرکین مکہ کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ تھیں ۔ آپ کی پیدائش (۵۷۰ء) میں ہوئی اور آپ کو نبوت (۶۱۰ء) میں عطا ہوئی تھی روم اور ایران میں جنگ ۶۰۲ء سے شروع ہو کر ۶۱۴ء تک جاری رہی اور یہ جنگی خبریں مکہ بھی پہنچتی رہی تھیں جب ایران کی فتح کی کوئی خبر آئی تو مشرکین مکہ بغلیں بجاتے اور اس خبر کو اپنے لیے نیک فال سمجھتے اور کہتے کہ جس طرح ایران نے روم کا سر کچلا ہے ایسے ہی ہم بھی کسی وقت مسلمانوں کا سر کچل دیں گے اور واقعہ بھی یہ تھا کہ ۶۱۰ء کے بعد یہ جنگ دو ملکوں کی جنگ نہ رہی تھی بلکہ اب یہ مجوسیت اور عیسائیت کی جنگ بن چکی تھی ۶۱۴ء میں خسر و پرویز نے روم کو ایک مہلک اور فیصلہ کن شکست دی شام مصر اور ایشیائے کوچک کے سب علاقے رومیوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔
[1] تفہیم القرآن: ۳/ ۷۲۴۔