کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 463
سورۃ النعمل دوسرے رکوع کی چوتھی آیت میں وارد النمل کا ذکر آیا ہے۔ سورت کا نام اسی سے ماخوذ ہے۔ [1] زمانہ نزول مضمون اور انداز بیان مکہ کے دور متوسط سے پوری طرح مشابہت رکھتا ہے اور اس کی تائید روایات سے بھی ہوتی ہے۔ سیّدنا ابن عباس اور سیّدنا جابر بن زید رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ پہلے سورۃ الشعراء نازل ہوئی پھر النمل پھر القصص۔[2] موضوع ومباحث یہ سورت دو خطبوں پر مشتمل ہے، پہلا خطبہ آغاز سورۃ سے چوتھے رکوع کے خاتمے تک ہے اور دوسرا خطبہ پانچویں رکوع کی ابتداء سے سورت کے اختتام تک۔ پہلے خطبے میں بتایا گیا ہے کہ قرآن کی رہنمائی سے صرف وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس کی بشارتوں کے مستحق بھی فقط وہی لوگ ہیں جو ان حقیقتوں کو تسلیم کریں جنہیں یہ کتاب اس کائنات کی بنیادی حقیقتوں کی حیثیت سے پیش کرتی ہے۔ دوسرے خطبے میں سب سے پہلے کائنات کے چند نمایاں ترین مشہور حقائق کی طرف اشارہ کر کے کفار مکہ سے پے در پے سوال کیا گیا ہے کہ بتاؤ یہ حقائق اس شرک کی شہادت دے رہے ہیں جس میں تم مبتلا ہو یا اس توحید پر گواہ ہیں جس کی دعوت اس قرآن میں تمہیں دی جا رہی ہے؟ اس کے بعد کفار کے اصل مرض پر انگلی رکھ دی گئی ہے کہ جس چیز نے ان کو اندھا بنا رکھا ہے۔ وہ دراصل آخرت کا انکار ہے۔ خاتمہ کلام میں قرآن کی اصل دعوت یعنی خدائے واحد کی بندگی کی دعوت نہایت مختصر مگر انتہائی موثر انداز میں پیش کر کے لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اس کو قبول کرنا تمہارے اپنے لیے نفع مند اور اسے رد کرنا تمہارے اپنے لیے نقصان دہ ہے۔[3]
[1] تفہیم القرآن: ۳/ ۵۵۲ [2] ایضاً۔ [3] ایضاً۔