کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 461
سورۃ الشعراء
آیت نمبر ۲۲۴ ﴿وَالشُّعَرَائُ یَتَّبِعُہُمُ الْغَاوُونَ﴾ سے ماخوذ ہے۔[1]
زمانہ نزول
مضمون اور انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے اور روایات اس کی تائید کرتی ہیں کہ اس سورۃ کا زمانہ نزول مکہ کا دور متوسط ہے سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ پہلے سورۃ طہٰ نازل ہوئی پھر واقعہ اور اس کے بعد سورۃ الشعراء[2] اور سورۃ طہٰ کے متعلق معلوم ہے کہ وہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام سے قبل نازل ہو چکی تھی۔[3]
موضوع ومباحث
تقریر کا پس منظر یہ ہے کہ کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ و تذکیر کا مقابلہ پیہم جحو دو انکار سے کر رہے تھے اور اس کے لیے طرح طرح کے بہانے تراشتے چلے جا رہے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں معقول دلائل کے ساتھ ان کے عقائد کی غلطی اور توحید ومفاد کی صداقت سمجھانے کی کوشش کرتے کرتے تھکے جاتے تھے مگر وہ ہٹ دھرمی کی نت نئی صورتیں اختیار کرتے نہ تھکتے تھے یہی چیزنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سوہان روح بنی ہوئی تھی اور اس غم میں آپ کی جان گھلی جاتی تھی۔
ان حالات میں یہ سورت نازل ہوئی کلام کا آغاز یوں ہوتا کہ تم ان کے پیچھے جان کیوں گھلاتے ہو یہ ہٹ دھرم لوگ ہیں ایسے لوگ نہ آفاق کی نشانیاں دیکھ کر مانا کرتے ہیں نہ رسول کے معجزات دیکھ کر یہ فقط عذاب دیکھ کر ہی مانتے ہیں ۔ اسی مناسبت سے تاریخ کی سات قوموں کے حالات پیش کیے گئے ہیں جنہوں نے اس ہٹ دھرمی سے کام لیا تھا جس سے کفار مکہ لے رہے تھے اور اس تاریخی بیان کے ضمن میں چند باتیں ذہن نشین کرائی گئی ہیں ۔
اول یہ کہ نشانیاں دو طرح کی ہیں ایک وہ جو اللہ کی زمین پر ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں جنہیں دیکھ کر ہر
[1] تفہیم القرآن: ۳/ ۴۷۴۔
[2] روح المعانی: ۱۹/ ۶۴
[3] ایضًا۔