کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 460
سورۃ الفرقان پہلی ہی آیت ﴿تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ﴾ سے ماخوذ۔ جو کہ ایک علامتی نام ہے۔[1] زمانہ نزول انداز بیان اور مضامین پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے اس کا زمانہ بھی وہی ہے جو سورۃ المومنون وغیرہ کا ہے، یعنی زمانہ قیام مکہ کا دور متوسط۔[2] موضوع ومباحث اس میں ان شبہات واعتراضات پر کلام کیا گیا ہے جو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور آپ کی پیش کردہ تعلیم پر کفار مکہ کی طرف سے پیش کیے جاتے تھے ان میں سے ایک ایک کا جچا تلا جواب دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ دعوت حق سے منہ موڑنے کے برے نتائج بھی صاف صاف بتائے گئے ہیں ۔ آخر میں سورئہ مومنون کی طرح اہل ایمان کی اخلاقی خوبیوں کا ایک نقشہ کھینچ کر عوام الناس کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ دوسری طرف وہ نمونہ اخلاق ہے جو عام اہل عرب میں پایا جاتا ہے اور جسے برقرار رکھنے کے لیے جاہلیت کے علمبردار ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اب خود فیصلہ کرو ان دونوں نمونوں سے کسے پسند کرتے ہو؟ یہ ایک غیرملفوظ سوال تھا، جو عرب کے ہر باشندے کے سامنے رکھ دیا گیا اور چند سال کے اندر ایک چھوٹی سی اقلیت کو چھوڑ کر ساری قوم نے اس کا جو جواب دیا وہ جریدہ روز گار پر ثبت ہو چکا ہے۔[3]
[1] تفہیم القرآن: ۳/ ۴۳۰۔ [2] ایضاً۔ [3] ایضًا۔